شہباز شریف نے عمران خان کو مفاہمت کی دعوت دی ہے۔ جب وزیر اعظم نہیں بھی تھے تو شہباز شریف قومی حکومت اور گرینڈ ڈائیلاگ کی بات کیا کرتے تھے۔ ان کا ماننا رہا ہے کہ پاکستان میں مسائل طاقت کے توازن کے بگڑنے کی وجہ سے اس قدر گھمبیر ہو گئے ہیں کہ اس کا حل مل بیٹھ کر بات چیت کرنے سے ہی ڈھونڈا جا سکتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ان کے ذہن میں کہیں یہ بھی ہو کہ پاکستان میں الزام دھرنے کی سیاست اور اپنے گناہ دوسروں پر لادنے کا رجحان اسی صورت ختم ہو سکتا ہے اگر طاقت کے تمام مہرے مل بیٹھیں اور اپنی اپنی گٹھڑی پہچان کر اسکا بوجھ خود اٹھائیں۔ جب پہچان اور ذمہ داری کی یہ مہم سر انجام دے دی جائے گی تو ممکن ہے کہ ضمیر پر چڑھی بے حسی کی گرد بھی دھل جائے اور وہ مقاصد جن کے لیے ریاست بنائی اور چلائی جاتی ہے ان پر نظر رکھنے کی ہمت اور جرات پیدا ہو۔ پاکستان کی سیاست کو اگر سمجھا جائے تو اس کے علاوہ کیا ہے کہ ہر پارٹی اقتدار میں ملنے والے حصے کے چھن جانے سے ڈرتی ہے اور دوسری طرف اقتدار کی راہداریوں پر بیٹھے راہزن ہیں جو پارٹیوں کی اس کمزوری کو کچھ اس طرح استعمال کرتے ہیں کہ یہ جماعتیں آپس میں لڑتی رہیں۔ ان کی باہمی لڑائی اور چپقلش نے رہزن کو اس قدر طاقت ور بنا دیا ہے کہ جب بھی سیاسی جماعتوں کے مابین اقتدار کی جنگ تھمنے نہیں پاتی تو اسی دشمن جاناں کو کبھی نیوٹرل، کبھی امپائر تو کبھی ثالث کی حیثیت سے مفاہمت کے لیے آنا پڑتا ہے۔ ریاست کی کمائی کا ایک بیش بہا حصہ سیاست دانوں اور بیوروکریٹس کی بدعنوانیوں کی جرح کرنے والے عدالتی نظام پر خرچ ہوتا ہے۔ شہباز شریف نے درست کہا ہے کہ جب انتظامیہ دن کا آدھا حصہ کچہریوں میں صرف کرے گی تو ملک کی ترقی اور ریاست کی مضبوطی کے لیے وقت کہا ںسے آئے گا۔ مشکل یہ ہے کہ سیاست دان پچھلے 75 سال سے ایک ہی فلم میں مختلف کردار نبھا رہے ہیں۔ کبھی انہیں ہیرو بنا دیا جاتا ہے، کبھی ولن ، کبھی کاسٹ ہی سے نکال دیتے ہیں تو کبھی ان کی قبرپر فاتحہ پڑھ دی جاتی ہے۔ نواز شریف نے جب ووٹ کو عزت دو کا نعرہ بلند کیا، مسلم لیگ ن نے جب ہمت باندھی جیسی کہ آجکل عمران خان دکھا رہے ہیں اور ان پس پردہ چہروں سے نقاب اٹھایا جنہوں نے انکی حکومت کو ختم کرنے اور ان پر منی لنڈرنگ کے کیس بنوانے میں کلیدی کردار ادا کیا تو لوگوں کو اندازہ تھا کہ وہ سچ بول رہے ہیں۔ مسلم لیگ کے اس بیانیے نے یقین جانیے عمران خان کی بہت مدد کی ہے۔ مسلم لیگ کا ووٹر جہاں بھی تھا اسے شکوہ تھا کہ اپنے عناد اور ہٹ دھرمی کا سر بلند رکھنے کے لیے کس طرح طاقت کے ایک سرچشمے نے نواز حکومت کو عدالتوں میں کھینچا، انکی اینٹ سے اینٹ بجائی اور عمران خان کو استعمال کر کے اقتدار کی اس جنگ میں ایک بڑی سیاسی جماعت کو ایک بار پھر بونا بنا دیا۔ آج باری عمران خان کی ہے۔ لیکن فرق صرف یہ ہے کہ عمران خان کی پیٹھ پر جو گٹھڑی ہے اس میں قوم سے چرائی نہ دولت ہے نہ بد دیانتیبلکہ عوام کا وہ جمع غفیر ہے جسے اس اندھیر نگری چوپٹ راج میں غربت، بیماری، مہنگائی اورسیاسی کرپشن کا مقابلہ کرنے کے لیے تنہا چھوڑ دیا گیا ہے۔ مسلم لیگ ن نے شاید اپنے ووٹر کو عزت دینے کا ارادہ ترک کردیا اور کردار کی ادلی بدلی میں ایک بار پھر اسی گھسی پٹی سکرپٹ اور ڈائریکٹرز کے زیر اثر نئے سیاسی سفر کا آغاز کیا۔ جانے کیا راز ہے کہ سیاست دان چاہتے ہوئے بھی اپنے آپ کو اس کھائی میں گرنے سے نہیں بچا سکتے جہاں انہیں سوائے کنویں کا مینڈک بننے کے اور کوئی جاب نہیں دی جاتی۔ ملک کو مفاہمت کی ضرورت ہے۔ مفاہمت کے اس باب کو شروع کرنے کے لیے بینظیر اور نواز شریف نے اپنے جلا وطنی کے ادوار میں میثاق جمہوریت جیسے اہم مسودے پر ستخط کئے تھے۔ اس مسودے کا بنیادی جزو پاکستان کی سیاست میں غیر سیاسی اداروں کی شمولیت اور انکی طرف سے دی جانے والی مدد اور پشت پناہی کے دروازے کو بند کرنا تھا۔ جس کے لیے ضروری تھا کہ تمام جماعتیں ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوں ، اپنے تنازعات خود حل کریں۔ یہ بھی طے کیا گیا کہ مشکل کے وقت تمام جماعتیں ایک دوسرے کو سہارا دیں نہ کہ ایک دوسرے کی کرسی کھینچ کر خود برا جمان ہونے کی کوشش کریں۔ بونا بننے سے بچا جائے لیکن بونے بنانے والے شاید بونے بننے والوں سے زیادہ شاطر ہیں۔ بینظیر قتل کر دی جاتی ہے۔ اب تک کہا یہ ہی جاتا ہے کہ انہیں بیت اللہ محصود نے قتل کروایا۔ کیا یہ سچ ہے؟ کیا دہشت گردوں نے بینظیر کی جان لی؟ لیاقت باغ میں جلسے کے بعد بینظیر کو جان کا خطرہ ہونے کے باوجود کس نے گاڑی کے سن روف سے باہر نکلنے کا مشورہ دیا؟ انکی حفاظت پر معمور ٹیم کیونکر تتر بتر ہو گئی؟ ان سوالوں کے جواب کے لیے تو سکاٹلینڈ سے تحقیقاتی ٹیم بلائی گئی۔ اقوام متحدہ کی مدد لی گئی۔ پاکستان کے تفتیشی اداروں نے سر توڑ محنت کی۔ ملک کے ٹیکس دھندگان کی ایک کثیر رقم اس مقدمے میں خرچ ہوئی لیکن نتیجہ دھاک کے وہ ہی تین پات۔ کچھ ہاتھ نہ ایا۔ اور سزا ہوئی تو ان چھوٹے عہدداروں کو جنہوں نے شاید اپنی نوکری بچانے کے لیے انا فانا جائے قتل کو پانی کے ہوزوں سے دھو ڈالا۔ اسی پانی کی دھار میں میثاق جمہورت بہہ گیا۔ اسی پانی کے بہاو میں وہ جز وقتی اتحاد جس کو بظاہر ہوس اقتدار سے کوئی لینا دینا نہیں تھا کسی پر نالے میں جا ملا اور پاکستان کے پاس رہ گئے تو وہ ہی سیاسی کردار جن کے راستوں پر پہلے سے بھی طاقت ور راہزن اکر بیٹھ گئے۔ کسی بھی سیاسی مفاہمت کی کامیابی اسی صورت ممکن ہے اگر تمام ہیرو اور ولین اپنے حصے کی انا اور لالچ کو چھوڑ کر یکسو ہر کر ملک کی فلاح کا سوچیں۔ تب ہی وہ طاقت ، ہمت اور یکسوئی مئسر ائے گء جس سے طاقت کے توازن کو بگاڑنے والے ان راہزنوں سے پاکستان کو بچایا جا سکے گا۔