افغانستان سے ہمارا دینی‘ تہذیبی‘ ثقافتی‘ تاریخی‘ جغرافیائی‘ تجارتی اور ہمسائیگی کا رشتہ ہے۔اسی بنا پر شاعر مشرق نے کہا تھا: اخوت اس کو کہتے ہیں چبھے کانٹا جو کابل میں تو ہندوستان کا ہر پیرو جواں بیتاب ہو جائے جب افغانستان پر روس نے یلغار کی تو ہم صرف بے تاب ہی نہیں ہوئے بلکہ جانیں قربان کیں، جب تورا بورا پر امریکی ڈیزی کٹر بم بارش کی طرح برس رہے تھے، تب پاکستانی نوجوان دیوانہ وار چمن سے سرحد پارجا رہے تھے۔گو یہ ہمارا دینی‘ اخلاقی اور سیاسی فریضہ تھا مگرہم نے اسے خوب نبھایا۔ جن مائوں نے اپنے لخت جگروں کو افغانوں کی مدد کے لئے بھیجا ‘ آج وہی مائیں طالبان کے اقدار میں آنے کے بعد اپنے پیاروں کے جنازوں سے لپٹ کر رو رہی ہیں۔ جن والدین نے افغان بچوں کو یتیم ہونے سے بچانے کے لئے اپنے بچوں کو کابل بھیجا،آج وہ والدین سرحد پر اپنے بچوں کے جنازے اٹھا رہے ہیں۔جب افغانستان میں انسانی جانیں بازار کی سب سے بے مابہ جنس بن کے رہ گئیں،تب پاکستانیوں نے دہشت گردی کے عفریت کو لگام دی۔پاکستانی نوجوان میدان میں اترے ،افغانوں کو سہارا دیا، مگر آج افغان سرحد پر طالبان کے ہاتھوں ہمارا ہی قتل ۔ہم پر ہی بلا اشتعال انگیز فائرنگ۔ امریکی میزائل ٹیکنالوجی آسمان کی بلندیوں سے زمین پر رینگتی چیونٹیوںکو بھی دیکھ لیتی ہے ،انسانی حقوق کی تنظیمیں ،جب افغانیوں کی مدد کرنے سے تائب ہو گئیں۔پاکستانی عوام تب آگے بڑھی ۔افغانیوں کو ٹھکانہ دیا،ان کے بچوں کو تعلیم دی ،ان کی خواتین کو تحفظ دیا۔ پاکستان قلمکاروں نے تب بھی شہابی آنکھوں‘ گلائی گالوں اور سنہری بالوں والی بچیوں کی داستانیں لکھیں، کہ وہ کن بازاروں میں فروخت ہو رہی ہیں، مگر آج تم نے طاقت میں آنے کے بعد انہیں محسنوں کے گھروں پر فائرنگ کر دی: وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا معاملہ یہیں پر ختم نہیں ہوا، بلکہ جب دنیا بھر کے روشن خیال لوگ نام نہاد مافیان قلم و قرطاس نے صدیوں کی قربتوں ‘ ضابطوں‘ اقدار‘ روایات اور اخلاقیات کو پس پشت ڈال کر طالبان پر الفاظ کے تیر برسائے،انھیں وحشی صفت انسان قرار دیا۔پاکستانی قلم کارتب ان کے سامنے ڈھال بن گئے اور طالبان کو موجودہ صدی کا بہادر سپوت قرار دیا۔ انھوں نے لکھا :وہ ملا سہی، اجڈ سہی، گنوار سہی، سنگ دل سہی، انتہا پسند سہی، دہشت گرد سہی۔ سب کچھ بجا۔ لیکن وہ تاریخ عالم کے عظیم مزاحمت کار بھی تو ہیں۔ جابروں کے خلاف مزاحمتی شاعری کرنے، جانباز کرداروں کے قصیدے رقم کرنے، انقلابی ترانے لکھنے، مزاحمت کی داستانوں پر ڈرامے بنانے اور فلمیں تخلیق کرنے والے، افغانیوں کو یہ اعزاز دینے کے لئے کیوں تیار نہیں؟ آج وہ سب انگشت بدنداں ہیں۔ طالبان کی بہادری‘ غیرت ‘ حمیت‘ جانثاری‘دلیری اور سرفروشی کے قصے لکھنے والے بھی حیرت میں مبتلا ہیں اور سب کے پاس ایک ہی سوال ہے کہ ملا عمر دور کے طالبان کہاں گئے؟ جو پاکستان پر دل و جان قربان کرتے تھے۔وہ کدھر ہیں؟ جن لوگوں نے 1996ء میں اقتدار میں آنے کے بعد اعلان کیا تھا کہ مغربی سرحد پر افواج تعینات کرنے کی ضرورت نہیں‘ پاکستان صرف مشرقی سرحد پر توجہ رکھے۔ ملا عمر کا قافلہ جب قندھار سے نمودار ہوا، ہم نے پاکستان میں مٹھائیاں تقسیم کیں ۔ کارواں جب ہرات تک پہنچا تو ہم نے خوشیوں کے شادیانے بجائے ۔ہماری مائوں اور بہنوں نے اپنے بیٹوں اور بھائیوں کو تمھارا ساتھ دینے کے لیے افغانستان بھیجا ،اپنے زیورات اتار کر تمھاری مالی مدد کی ،اب وہی مائیں اور بہنیں اور بھائیوں اور بیٹوں کے جنازوں پر ماتم کرتی نظر آتی ہیں ۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ زندگی تنوع اور رنگارنگی سے عبارت ہے۔ کوئی شخص فکر و عمل کے حوالے سے کاملیت کے سانچے میں نہیں ڈھلا ہوتا۔معاشروں اور قوموں کا بھی یہی احوال ہے۔غلطیاں دونوں جانب سے ہو سکتی ہیں ،لیکن اس کا حل بات چیت ہے ۔فائرنگ نہیں ۔ اس بکھرائو اور انتشار میں بڑا کردار ہمارے رہنمائوں کا ہے، جو دلوں اور ذہنوں کو ٹکنے نہیں دیتے اور اپنی سیاست چمکانے کے لئے طوطے مینا اڑاتے رہتے ہیں۔ انتہائوں کا جھولا جھولتی یہ قوم تضادات کی دلدل میں دھنستی چلی جارہی ہے۔ بنیادی قومی مفادات تک کا تعین نہیں ہوپارہا اور تقسیم در تقسیم کی لکیریں گہری ہورہی ہیں۔ اب ایک نیا مسئلہ ڈیورنڈ لائن ایک نئی لکیر بن کے ابھر رہا ہے۔ 2001ء میں پاکستان کے کمانڈو صدر نے جب امریکہ کی قدم بوسی کی ،تو پورا ملک اس فیصلے سراپا احتجاج بنا رہا ۔ تمھاری محبت میں سب نے بھاری پگڑیاں، گھنی داڑھیاں اور لمبی عبائیں پہن کر تمھارا ساتھی ہونے کا اعلان کیا تھا ۔کیونکہ ملا عمر کے سرفروش، چہروں پہ گھنی داڑھیاں، سروں پہ بھاری پگڑیاں اور لمبی قبائیں پہنتے تھے۔ہم تب ملا محمد عمر کے قافلہ سخت جاںکاحصہ بنے پر فخرکرتے تھے ۔اب سرحد پر آئے روز کی فائرنگ سے دل برداشتہ ہیں ۔ آخری بات ۔ہم نے تو تمھاری محبت اور امریکی رعونت، منافقت اور خودسری سے نفرت کرتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ ’’امریکیوں کا نشانہ بننے والا ایک کتا بھی شہید ہے‘‘ ذرا تحمل سے سوچنا! اب آپ ہمارے نشیمن پر کیسی کیسی بجلیاں گرا رہے ہیں ؟اپنے آپ کو کیسے کیسے سنگین بحرانوں میں مبتلا کر رہے ہو؟امیر المومنین ملا ہیبت اللہ کے اور ملا عمر کے دور میں کیا فرق ہے؟ملامحمد یعقوب اور ملا سراج الدین حقانی کو فرصت کے لمحات میں سوچنا ہو گا ۔