اس بات کو اب کوئی چالیس برس سے زیادہ ہو چکا ہے جب میرے دل میں یہ وسوسہ پیدا ہوا کہ شاذلی سلسلہ المغرب میں تو بہت مقبول ہیں مگر ان کا فیض مجھ تک تو نہیں پہنچا۔ اس سے میری مراد یہ ہو گی کہ برصغیر میں ان کاسلسلہ کا چلن نہیں ہے مگر میری اناپرست رومانویت نے اسے یوں ادا کیا۔ کر ناخدا کا یوں ہوا کہ دو چار دنوں ہی میں آسمانوں سے اس کا جواب آ گیا۔ میں ایک خاص مقصد کے لیے ایک بزرگ سے ملا‘ انہوں نے ازراہ عنایت مجھے حزب البحر کی اجازت مرحمت فرمائی۔ ان کے شیخ برصغیر کے ایک نامور عالم دین تھے‘ مگر انہوں نے فرمایا کہ میں نے آپ کو یہ اجازت اس شاذلی بزرگ کی طرف سے دی ہے جنہوں نے خانہ کعبہ میں مجھے اس کی اجازت مرحمت فرمائی تھی۔ سوال یہ ہے کہ میرے دل میں یہ خیال کیوںآیا۔ وجہ اس کی یہ تھی کہ ادب میں ہمارے استادوں کے استاد حسن عسکری ایک نو مسلم فرانسیسی مصنف رینے گینوں سے متاثر ہو گئے تھے جن کا اسلامی نام عبدالواحد یحییٰ تھا۔ یہ رینے گینوں اتنے بڑے آدمی تھے کہ آندرے ژید نے جب ان کی کتابیں پڑھیں تو اتنا متاثر ہوا کہ بڑے تا سف سے کہنے لگا‘ اب میری عمر 70 سال ہو گئی ہے۔ اس عمر میں اپنے آپ کو بدل نہیں سکتا۔ آندرے ژید کے اس فقرے میں ایک عجب حسرت ہے کہ افسوس مجھ تک یہ پیغام حق بہت دیر سے پہنچا۔ رینے گینوں نے ایک پورے دبستان کو متاثر کیا جن میں شواں‘ مارٹن لنگزتوان سے استفادہ کرنے والوں میں ہیں۔ سراج منیر، احمدجاوید سب وہاں کے خوشہ چیںہیں۔ اس طرح یہ سلسلہ ہمارے لیے ایک زندہ حقیقت بن گیا۔ یہ سب باتیں مجھے اس لیے یاد آئیں کہ کل میں نے ٹی وی پر سنا کہ قذافی سٹیڈیم میں ایک لائبریری کا افتتاح خاتون اول نے کیا ہے اور اس کا نام شیخ ابوالحسن علی شاذلی کے نام پر رکھا گیا ہے۔ میں پہلے سوچ میں پڑ گیا‘ ایسا کیوں ہے‘ اگرچہ جانتا ہوں کہ چشتیہ سلسلے میں شیخ شاذلی کی حزب البحر خاص طور پر مقبول ہے اور خاتون اول کی نسبت بھی سلسلہ چشتیہ کے حضرت بابا فرید گنج شکرؒ سے ہے۔ گزشتہ دنوں ایک یونیورسٹی بھی بنائی گئی تھی جسے عبدالقادر یونیورسٹی کہتے ہیں۔ مجھے نہیں معلوم اس یونیورسٹی کا اصل نام کیا ہے‘ میرے لیے صرف عبدالقادر کہنا ذرا گستاخانہ لگتا ہے کیونکہ یہ پیران پیر شیخ عبدالقادر جیلانی المعروف غوث اعظم کی طرف اشارہ ہے۔ بہرحال یہ تو جملہ معتر ضہ ہے۔ میری تو ایک عرصے سے خواہش ہے کہ ساہیوال میں بننے والی یونیورسٹی کا نام شکر گنج یونیورسٹی آف ساہیوال (ایس یو ایس) رکھا جائے مگر فقیروں کی کون سنتا ہے۔ بہرحال یہ اچھا کام ہے مگر اسے بامعنی ہونا چاہیے۔ مجھے نہیں معلوم کہ اس میں کون کون شریک تھا۔ پاکستان میں اس سلسلے کے خلیفہ تھے جو شاید انتقال فرما چکے ہیں۔ ہمارے دوست سہیل عمر جو اقبال اکیڈمی کے ڈائریکٹر رہے ہیں اور اس سلسلے کی ترویج میں خاصی شہرت رکھتے ہیں وہ مارٹن لنگز کے مریدہیں اور پاکستان میں ان کے مقدم ہیں۔ سمجھ لیجئے نمائندے ہیں۔ شاذلی سلسلے میں خلیفہ کے بعد مقدم ہوتا ہے جو اپنے پیر کی طرف سے بیعت لے سکتا ہے۔ بہرحال میں ذکر کر رہا تھا کہ اس قسم کے ادارے ایک بہت خوشگوار تاثر دیتے ہیں مگر انہیں صرف نام کا طرہ سجا کر نہیں بیٹھنا بلکہ وہ کام کرنا ہے جو اس نام کے شایان شان ہو۔ کہا گیا کہ اسے ہاورڈ‘ آکسفورڈ‘ کیمبرج وغیرہ کی لائبریریوں سے منسلک کیا جائے گا۔ بس یہ اعلان ہی کافی نہیں ہونا چاہیے اسے کردینا چاہیے۔ پاکستان میں اسے جامعہ نعیمیہ کی لائبریری سے منسلک کیا گیا۔ ڈاکٹر راغب نعیمی ایک بڑ ی روایت کے وارث ہیں۔ مجھے امید ہے کہ اس سے ان میں انہیں بھی فیض پہنچے گا اور لازمی طور پر یہ ادارے چاہے امام شاذلیؒ کے نام سے ہوں یا حضرت غوث اعظمؒ کے نام پر اپنے بزرگوں کے شایان شان ہوں گے۔ میں اس وقت کھٹکتا ہوں جب کہتے ہیں تصوف کے علاوہ سائنس اور ٹیکنالوجی کا بھی اس میں تڑکا لگایا جائے گا۔ اچھی بات ہے مگر اس پر اصرار کرنا گویا معذرت خوا ہانہ رویہ اختیار کرنا ہے۔ یہ بتانا ہے کہ ہم دین یا تصوف کا نام لیتے ہیں تو یہ نہ سمجھا جائے کہ ہم سائنس سے بے بہرہ ہے۔ کچھ کئے بغیر ایسے ہوتا نہیں۔ بہاولپور میں پہلے صرف اسلامی یونیورسٹی تھی جس کا تشخص اب بھی ہے مگر اب ہر مضمون کی تعلیمی دی یتی ہے۔ جامعہ الازہر کا ماڈل بھی ہمارے سامنے ہے۔ اسلام آباد کی اسلامک یونیورسٹی ہم نے انٹرنیشنل ماڈل پربنائی۔ اب یہ جو ادارے بنا رہے ہیں‘ اس میں تخلیق کے سوتے جگائیے اور انہیں سچ مچ بامعنی بنائیے۔ اس وقت میں صرف اتنا عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اللہ کرے ان اداروں کو ان ہستیوں کا فیض پہنچے جس کے نام سے یہ منسوب کی گئی ہیں۔