عجز و انکساری نرم گفتاری اور ملنساری میں لاجواب ممنون حسین زندگی کے سیاسی سفر میں ہر کولیس ثابت ہو ئے۔ اب وہ ابدی نیند سونے چلے گئے ، ان کے اصول ان کی رواداری اور ان کی دریا دلی کے سوتے خشک ہو گئے ، ان سے تعلق رکھنے والی نسل اب تیزی سے رخصت ہو رہی ہے۔ سابق گورنر سندھ لفٹیننٹ جنرل (ر) معین الدین حیدر بتارہے تھے کہ جب نواز شریف وزیر اعظم کی حیثیت سے کراچی کے دورے میں گورنر ہاؤ س آتے تو وہ بڑے غور سے دیوار پر آویزا ں اس بورڈ پر ضرور نظر ڈالتے جس میں سندھ کے تمام گورنر صاحبان کے نام اور ان کے دور کی تاریخیں درج ہیں، ایک دن میں نے میاں صاحب سے پوچھ ہی لیا کہ آپ ہمیشہ غور سے اس بورڈ پر نظر ضرور ڈالتے ہیں ، وزیر اعظم مسکرائے اور کہنے لگے در اصل میں اپنے ایک قریبی ساتھی کو سندھ کا گورنر بنانے کا ارادہ رکھتا ہوں، میں نے ان سے کہا کہ سر آپ جب بھی حکم کریں بلا تکلف کہہ سکتے ہیں ، میا ں صاحب نے کہا نہیں جنرل صاحب جا ری رکھیں۔ چند ماہ بعد ہی مجھے معلوم ہو گیا کہ سندھ کا اگلا گورنر کون ہوگا ، ہوا یوں کہ میاں صاحب اپنا دورہ کراچی مکمل کرکے گورنرہاؤس سے ائیر پورٹ روانہ ہونے کیلئے ابھی گورنر ہا ؤ س کے پورچ میں کھڑے ہم سے محو گفتگو تھے کہ ایک کار تیزی سے گورنر ہاؤ س کے گیٹ میں داخل ہو ئی، جیسے ہی وہ ہمارے قریب رکی وزیر اعظم نے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا کہ آئیں پہلے کچھ کھالیں پھر ایئر پورٹ چلتے ہیں ، یہ ممنون حسین تھے عجز و انکساری کا نمونہ دھیمی گفتگو کرنے والے نواز شریف کے وفا دار ساتھی ، روایات والے سیا سی کارکن انہوں نے برنس کے روڈ کے ایک فلیٹ سے ایوان صدر تک کا سفر کیسے طے کیا اس کہانی کو کسی اور دن پر چھوڑ دیتے ہیں ، ہماری ممنون صاحب سے بڑی دیرینہ یاد اللہ تھی، جب گورنر سندھ بنے تو بھی بڑی گرم جوشی سے ملتے کراچی کے مسائل کے متعلق ہر وقت فکر مند رہتے اور ماضی میں روایت سے بھرے کراچی کے معاشرے کا تذکرہ کرتے ہوئے افسردہ ہوجاتے۔ بتانے لگے کہ 12اکتوبر 1999 کو جنرل مشرف کا ٹیک اوور ہوا تو میں راولپنڈی میں تھا ، دوسرے دن جہاز پکڑ کر واپس آیا تو گورنر ہا ؤس کا ماحول پر سکون تھا ، فوج کی جانب سے کوئی بھی را بطہ نہیں ہوا تھا، پھر بھی میں نے بیگم سے کہا کہ سامان باندھ لو ذاتی سامان سمیٹا اور ہم اپنے ذاتی گھر منتقل ہو گئے،یہ گھر بھی میاں صاحب کے کہنے پر لیا تھا۔ نوازشریف کی حکومت کے خاتمے بعد ایک بار فوجی حکومت کے ذمہ دار آفیسر کا فو ن آیا تھا ، یہ خیر سگالی کا فون تھا، شاید وہ یہ جاننا چاہتے کہ میری وفا داریاں اور ہمدرد یا ں تبدیل ہو نے کے کیا امکانات تھے، میں نے انہیں جواب دیا کہ اتنے دنوں کے محبتیں اور رفاقت تو بڑی پائیدار ہو جاتی ہے،وہ آفیسر خامو ش ہو گئے،جیسے سب سمجھ گئے ہو ں پھر کسی نے رابطہ نہیں کیا۔ایک دن ڈاکٹر عشرت العباد جب وہ گورنر تھے کے ڈنر پر ان سے ملاقات ہوئی،ڈاکٹر عشرت کہنے لگے کہ ممنون صاحب ہمارے بڑے ہیں، یاد آرہی تھی اس لیے زحمت دی، ممنون حسین سیاسی تعلقات میں رواداری اور باہمی عزت و احترام کے قائل تھے، وہ حلقہ احباب میں بڑی عزت و قدر کی نگا ہ سے دیکھے جاتے تھے ۔ 2013کے انتخابات سے پہلے نواز شریف نے طے کر لیا تھا کہ مسلم لیگ ن کی فتح کی صورت میں آئندہ صدر پاکستان ممنون حسین ہو ں گے،ایوان صدر میں داخل ہونے کے بعد وہ ایک روایتی صدر تھے کیونکہ آئین پاکستان میں صدر کا کردار بہت محدود ہوتا ہے،پھر بھی وہ نواز شریف کے ساتھ بعض باتیں بڑے دو ٹوک اندا ز میں کہہ جاتے تھے، میاں صاحب سے کو ئی اختلاف ہو تا تو بر ملا اس کا اظہار کر دیتے تھے۔ ایوان صدر کے مکین کے طور پر ہماری ان سے تعلقات کی ڈور حسب سابق قائم رہی ایک موقع پر ہم چند صحا فیو ں کو انہوں نے خصوصی طور پر ایوان صدر مدعو کیا تو ہماری فرمائش پر انہوں نے اس عالیشان عمارت کا مکمل طور وزٹ بھی کروایا، صدر اور ان کے اہل خانہ کہا ں رہتے ہیں۔ وہ کس طرح زندگی گزارتے ہیں، صدر مملکت کی کیا مصروفیات ہو تی ہیں، غیر ملکی شخصیا ت سے ان کی ملاقات کا پروٹو کول کیا ہو تا ہے، اہم حلف برداری کی تقاریب کس ہا ل میں منعقد ہو تی ہیں، اس سے قبل بھی ایوان صدر آنے کا کئی بار اتفاق ہوا تھا۔ یہاں صدر رفیق تارڑ کو بھی دیکھا تھا، جو کہتے تھے کہ تاریخ میں صرف وہی حکمران زندہ رہتے ہیں، جو قانون بناتے ہیں ، جو مظلوموں کے آنسو پونچھتے ہیں، جو ظالم کا راستہ روکتے ہیں، آپ شلوار کو ہمیشہ ٹخنوں سے اوپر رکھتے تھے ، روضہ ر سولﷺ کی تصو یر دیکھ کر آپ کی آنکھیں نم ہو جاتی تھیں۔ درود شریف کے بغیر حضورﷺ کا نام نہیں لیتے تھے ، میں نے اسی ایوان صدر میں جنرل مشرف کو بھی دیکھا جو دل کی بات زبان پر لانے میں زیادہ دیر نہیں لگاتے تھے، جن کی زندگی میں ایڈوانچر بھی تھا اور تھرل بھی جنرل ضیاء کی طرح با اختیار تھے اور اقتدار کو دو ام دینے کیلئے کسی حد تک جانے کو تیار رہتے تھے ، انہی کی طرح کمپرو مائزنگ بھی تھے اور اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ بین الا قوامی اور ملکی دوست اور دشمن مستقل نہیں ہوتے ہیں لیکن جہا ں ضیا ء الحق نے اسلامی ٹوپی پہنی ہو ئی تھی وہاں جنرل مشرف نے لبرل کیپ لگائی ہو ئی تھی ، اسی ایوان میں آصف زردا ری بھی رہے۔ میں نے اسی ایوان میں موجودہ صدر عارف علوی کو بھی دیکھا ،جو انتہائی مرنجاں مرنج شخصیت کے مالک ہیں ، عمران خان سے ان کا بے لوث تعلق ابتدا ء سے لے کر صدر بننے تک کبھی ذاتی فائدے کیلئے نہیں تھا۔ پھر حالات اور وقت نے انہیں ایوان صدر تک پہنچا دیا ، ایسا ہی تعلق ممنون حسین کا نواز شریف سے تھا، ممنون حسین کی زندگی کو سینکڑوں لوگ چھو کر گزرے خواص بھی اور عا م لوگ بھی ، لیکن ان کا سلوک ہر ایک ساتھ یکساں رہا، وہ خداداد ذہانت جذبہ ہمدردی اور ہر ایک کیلئے عزت و احترا م کی سوغات رکھتے تھے۔ تعلیمی اور ادبی سرگر میوں کی سرپرستی پر ہمیشہ فخر کرتے۔ خاموش طبع انسان تھے ۔