آج انتخابات کا دن ہے اب زمینی حقائق بتا رہے ہیں کہ قومی انتخابات کے نتائج کے بعد ملک میں ممکنہ طور پر مخلوط حکومت ہی کے امکانات زیادہ نظر آ رہے ہیں پارلیمنٹ میں 342 کی تعداد ہوتی ہے جبکہ کسی بھی سیاسی جماعت کو سادہ اکثریت حاصل کرنے کے لیے 137ممبران درکار ہونگے موجودہ حالات میں کوئی بھی سیاسی جماعت اس پوزیشن میں نہیں کہ وہ اکیلے حکومت سازی کر سکے معلق پارلیمنٹ کا وجود خود کمزور حکومت کا باعث بنے گا یہ ملک کی بدقسمتی ہو گی کیونکہ غیر ملکی طاقتیں پاکستان میں کمزور حکومت کے قیام کے لیے سرگرم عمل ہیں اس ضمن میں ہر حربہ استعمال کیا جا رہا ہے غیر یقینی کی صورت حال پیدا کرنے کی غرض سے دہشت گردی کے واقعات بھی ہو رہے ہیں۔ عمران خان جو کہ بظاہر حکومت بنانے کی پوزیشن میں نظر آ رہے ہیں مگر وہ مخلوط حکومت بنانے کی غرض سے نہ تو ن لیگ اور نہ ہی پیپلز پارٹی سے کسی قسم کی کوئی سودے بازی کرنے کو تیار ہیں ویسے بھی جس روز عمران خان نے ان دونوں سیاسی جماعتوں سے حکومت بنانے کی غرض سے کوئی سیاسی سمجھوتہ کر لیا اسی روز عمران خان کی سیاست بھی اپنا وجود کمزور کر بیٹھے گی یہ کس طرح ممکن ہو گا کہ کرپٹ عناصر کا مسلسل احتساب جاری رہے کرپشن کا خاتمہ عمران خان کی اولین ترجیحات میں شامل ہے دوسری جانب اگر عمران خان آزاد ممبران جو کہ جیپ کے نشان سے انتخاب جیت کر پارلیمنٹ میں آئیں گے ان کا تعاون حاصل کر کے اور ساتھ ہی دیگر چھوٹے گروپس کو بھی ساتھ ملا کر حکومت بنانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تب بھی عمران خان کے لیے مشکلات درپیش رہیں گی ابھی تک تو تحریک انصاف نے اپنی شیڈو کابینہ کا اعلان بھی نہیں کیا مگر وزارت خارجہ اور وزارت خزانہ کے لیے جو نام ممکنہ طور پر سامنے آ سکتے ہیں ان میں اسد عمر اور شاہ محمود قریشی نمایاں طور پر نظر آتے ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ دونوں ان اہم عہدوں کے لیے موزوں ترین شخصیات ہیں جبکہ پنجاب میں اگر تحریک انصاف کو حکومت بنانے کا موقع ملتا ہے تو پھر ایک بار پھر وزارت اعلیٰ کے لیے شاہ محمود قریشی ہی موزوں ترین امیدوار تصور کئے جائیں گے جبکہ آزاد گروپ سے جیت کر آنے والے چودھری نثار علی خان بھی پنجاب میں حکومت بنانے میں بھر پور کردار ادا کر سکتے ہیں بہرحال اس وقت عمران خان‘ شاہ محمود قریشی اور چودھری نثار علی خان ملک کی آئندہ کی سیاست میں کلیدی کردار ادا کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں جبکہ دوسری جانب بلاول زرداری کے لیے جو سیاسی میدان سج رہا ہے ان میں فی الحال وہ یا تو سندھ تک ہی محدود رہیں گے یا پھر وفاق میں کسی حد تک اپنا سیاسی کردار ضرور ادا کر سکیں گے لیکن شرط یہ ہے کہ کم از کم اپنے ساتھ زرداری گروپ کو نہ لائیں ویسے بھی وہ نہ تو بھٹو بن پائے ہیں اور نہ ہی آئندہ بھٹو بن پائیں گے۔ اتنا ضرور ہے کہ بلاول زرداری کا اب پاکستانی سیاست میں کسی نہ کسی حوالے سے سیاسی کردار ضرور برقرار رہے گا اور پھر جو سیاسی پچ عمران خان کھیلنے کے بعد چھوڑیں گے اس پچ پر آئندہ قومی انتخابات میں بلاول زرداری کھیل سکیں گے لیکن اس کھیل میں بھی ان کو اپنے والد آصف علی زرداری کی سیاسی سوچ سے الگ رہنا ہو گا اور پھر یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ بلاول زرداری اپنے والد کی کرپشن کا بوجھ اپنے کندھوں سے کس طر ح اتارنے میں کامیاب ہوتے ہیں یہ ہی وہ سیاسی حکمت عملی ہے کہ اگر پیپلز پارٹی کو بھی مستقبل میں پاکستان کی سیاست میں فعال کردار ادا کرنا ہے تو پھر آصف علی زرداری سے ہر حال میں جان چھڑانا ہو گی کہ جس میں فریال تالپور جیسے لوگ بھی شامل ہونگے۔ انتخابات کے نتیجہ میں جو بھی حکومت بنتی ہے اسے ہر قیمت پر کرپشن کے خلاف آپریشن جاری رکھنا ہو گا اور پھر ساتھ ہی ماضی کے حکمرانوں کا کڑا احتساب کرتے ہوئے ان سے لوٹی ہوئی قومی دولت بھی واپس لینی ہو گی پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلا موقعہ ہے کہ حکمرانوں کے خلاف احتساب کا عمل شروع ہوا ہے اور رائے عامہ ہموار ہو چکی ہے کہ ہر کسی کا بلا امتیاز احتساب ہو جس کی زد میں ن لیگ اور پیپلز پارٹی تو آ ہی رہی ہے اب خود پاکستان تحریک انصاف کی اپنی صفوں میں بھی کرپٹ عناصر کو بے نقاب کر کے ان کا احتساب ہونا چاہیے۔ اسی بنا پر اب عمران خان کو بے پناہ چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا ان تمام چیلنجز کا مقابلہ کرنے اور ساتھ ہی ایک مضبوط حکومت کی تشکیل میں عمران خان کی سیاسی حکمت عملی کا بھی امتحان ہے۔ غیر ملکی طاقتیں جو کہ اس وقت پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی بھر پور کوشش کر رہی ہیں ان سے آنے والی نئی حکومت کس طرح نمٹتی ہے اور پھر پاکستان میں آنے والے پانی کے بحران کا حل کیا تلاش کیا جاتا ہے غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی اور ان قرضوں سے جان چھڑانا‘ ملک میں ٹیکس کی وصولی کا نظام اور پھر اس کی وصولی کو یقینی بنانا یہ سب کچھ آنے والی حکومت کے اولین ایجنڈے میں شامل ہونا چاہیے یہ اسی وقت ممکن ہو گا کہ جب ایک مضبوط اور فعال حکومت تشکیل پائے۔ نئی حکومت کے وجود میں آنے کے بعد تمام منظور نظر حکومتی مشیروں اور بیرون ملک اہم ممالک جن میں برطانیہ‘ امریکہ‘بھارت ‘ متحدہ عرب امارات‘سعودی عرب ‘ کینیڈا ‘ روس اور آسٹریلیا کے علاوہ قطر‘ بحرین ‘ اومان‘ کویت ان میں سیاسی بنیادوں پر تعینات تمام سفارتی عہدے داروں کو فوراً فارغ کر کے کم از کم بیرون ملک کیرئر ڈپلومیٹس کی تعیناتی کو یقینی بنایا جائے اور ساتھ یہ حکومتی عہدوں پر سفارشی مشیروں کو تعینات کرنے کی پالیسی ختم ہونی چاہیے۔ ہر شعبے میں میرٹ ہی کو ترجیح دی جانی چاہیے۔ پس تحریر:گزشتہ دنوں یعنی 20جولائی کو لندن کے ST Thomasہسپتال میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے میری ہارٹ سرجری کامیاب رہی ہے اس سے پہلے 2001ء میں ٹرپل بائی پاس ہوا تھا مگر دل کی شریانیں آہستہ آہستہ بند ہو رہی تھیں اب دوبارہ برطانیہ کے معروف سرجن Dr. Pavlidis A natoniosنے ہارٹ کا یہ پروسیجر ادا کیا یقین جانیے کہ اس ہارٹ پروسیجر پر میری ایک بھی پینی خرچ نہیں ہوئی یہ سب کچھ NHSبرطانوی میڈیکل سسٹم کے تحت ہوا دعا ہے کہ پاکستان میں بھی یہ سلسلہ شروع ہو جائے۔