ڈرامہ ارطغرل نے چارسو اپناسکہ بٹھادیاغیرمسلم اقوام اس پرناخوش تھے ہی لیکن مسلمانوں میں سے بھی بعض طبقات اس پرناک بھویں چڑھائے بیٹھے ہیں۔افسوس یہ ہے کہ بعض بھارتی علماء نے اس کے خلاف فتوے صادرکردیے۔ المیہ یہ ہے کہ بھارت میں سینکڑوںاقساط پردکھائے جانے والے ہندوتہذیب وثقافت پرمبنی ہندوڈرامہ ’’رامائن سیریل اورمہابھارت‘‘پریہ علماء ایسے چپ رہے جیسے ان کے منہ میں گھنگھنیاں پڑچکی تھیںمگرجونہی مسلمانوں کے عثمانی دورخلافت اوراس دورکے فتوحات پرمبنی ڈرامہ ارطغرل نے پوری آب وتاب کے ساتھ دنیاپر اپنی دھاگ بٹھادی تووہ بپھرگئے اورفتوے جاری کردیئے کہ اسلام میں ڈرامہ بازی کاکوئی تصورنہیں ۔اس لئے اسے نہ دیکھاجاناچاہئے ۔یہ بات فتوے باز خوب جانتے ہیںکہ دینی جذبات سے سرشار،دین کی سربلندی کے لئے جہادکرنے والے مجاہدین کی بہادری اور اسلام نوازوںکے عقل و فراست کے حاملین پرمبنی ڈرامہ ارطغرل سے نوجوانان ملت کے سدھارکی وجہ بن توسکتی ہے لیکن کافرانہ ڈگرپروہ نہیں جاسکتے۔توپھراس کے خلاف فتوے کیوں؟اگروہ یہ نہیں جانتے پھرایسی عقل پرماتم۔ بھارت کے سرکاری ٹیلی ویژن چینل دور درشن پر جب ڈرامہ سیرئل رامائن اور مہابھارت نشر ہوتا تھا تو بھارت میں مسلمان بھی اسے دیکھتے رہے۔ آج آرایس ایس ،اسکی تمام ذیلی تنظیمیں اوربی جے پی برملاکہہ رہی ہیں کہ رام مندر تحریک کو تقویت پہنچانے میںڈرامہ سیرئل رامائن نے کلیدی کردار ادا کیا تھا یہی وجہ ہے کہ بھارتی سپریم کورٹ کے حقائق کے خلاف اورظالمانہ فیصلے کے بعد جب شہید بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کا کام شروع ہوا ہے تو ڈرامہ سیرئل رامائن کو دوبارہ نشر کیا جارہا ہے۔بھارت کو ہندو راشٹر بنانے میں ہندو تہذیب کا احیا کرنے میں ڈرامہ سیرئل رامائن اورمہابھارت کا کلیدی کردار ہے جنہوں نے ایک غیر محسوس طریقے سے بھارت کی کئی ریاستوں میںمسلم خواتین کو شرکیہ افعال پر آمادہ کر لیا ۔جبکہ دیگرغلیظ بھارتی فلموں میں ہندو رسوم و روایات کو اس انداز میں پیش کیا گیا ہے کہ ہندوستان کے بعض مسلمان اگنی پوجامیں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے اور کئی پروگرامات کا آغاز بھی دیاروشن کرکے کرتے ہیں۔توبھارتی علماء کی طرف سے کوئی فتویٰ کوپندونصیحت اورنہ ہی کسی تشویش کااظہار۔ مگرآج جب پوری دنیا کی مسلم آبادی کا وہ نوجوان ڈرامہ ارطغرل دیکھ رہاہے کہ جو عظمت رفتہ کی تلاش کا متمنی ہے۔ وہ اس ڈرامہ میںاپناروشن اورتابناک ماضی تلاشنے لگاہے جہاں اسے بطورمسلمان اپنی قوت ،حیرت ،حمیت اور تہذیب وثقافت نظر آرہی ہے۔تویکایک ہندوستان کے بعض علماء اسکے ناجائزا ورحرام ہونے پر اس کے خلاف فتوے صادرکرنے لگے ،سوال یہ ہے کہ کس حرح ولالچ اورکن بھارتی منصوبہ سازوں کے ابھارنے پران کے اندرہلچل پیداہوئی ۔کیاانہیں پتانہیں کہ مسلمان ڈرامہ ارطغرل کوکسی فریضہ دین کو اداکرنے اورکوئی دینی عبادت سرانجام دینے کے لئے نہیں دیکھ رہے ہرگزاورقطعاََنہیں لیکن ہماری تاریخ کس قدردرخشندہ اورتابندہ رہی ہے اورآج وہ کس طرح دھندلاکرہماری سامنے پڑی ہے ۔دراصل بھارت کے ہنودی منصوبوں میں یہ امر سرفہرست ہے کہ آج کامسلمان نوجوان اپنی تاریخ کوفلمائزہوکرنہ دیکھے کیونکہ پھروہ غلامانہ زنجیروں کوتوڑ کراس طوق لعنت کے خلاف اپناسب کچھ تج کرمیدان عمل میں صف بندی کرسکتاہے ۔ہنودکی پریشانی یہ ہے کہ کہیںمسلم نوجوان میں وہی جوش ،جذبے ،ولولے ،طنطنے اوردبدبے کی چنگاریاں سلگ نہ اٹھیں جوعصرماضی میں اس میں اٹھتی رہی ہیںاورعصرحاضر میں مسلمانوں کی ذلت وخواری دیکھ کرکہیں وہ بھی ارطغرل نہ بن جائے ۔ ماضی قریب میں لیبیا کے معلم قرآن عمر المختار جب اطالوی فوجوں کے خلاف جہاد کرتے ہوئے شہید ہوئے تھے تو ان پر بننے والی فلم ہر وہ مسلمان دیکھنا چاہتا تھا جو جذبہ جہاد سے سرشار تھا۔حقیقت یہ ہے کہ صیہونی وہنودی منصوبہ سازوں نے مشرق ومغرب کے مسلمانوں کے جس جذبہ کو سب سے زیادہ کچلنے کی کوشش کی ہے وہ جذبہ جہاد ہی ہے۔دہشت گردی کے نام پر برپا کی گئی تہذیبی جنگ میں جہاد و شہادت پر گفتگو ان تمام لوگوں پر گراں گذرنے لگی جو حب الدنیا و کراہی الموت کا شکار ہوچکے تھے ایسے میں ڈراما سیریل ارطغرل کا پیش کیا جانا اسی جذبے کی آبیاری تھا جسے صدر رجب طیب اردوان چاردانگ عالم مسلمانوں میں بھردیناچاہتے ہیںتاکہ اسلام اورمسلمانوں کی عظمت رفتہ بحال ہوسکے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت عرب حکمراں پوری طرح کھوکھلے ہوچکے ہیں جبکہ ترکی اسلامی دنیا میں اہم کردار ادا کررہا ہے۔ احیائے خلافت کی کوششوں میں ترکی جس طرح بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہا ہے کہیں یہ جذبہ عرب حکمرانوں کے سقوط کا سبب نہ بن جائے اوروہ عثمانی خلافت جسے صیہونیوں نے کمال ہوشیاری سے کالعدم قرار دے دیا تھا کہیں دوبارہ منصہ شہود پر نہ آجائے ۔صہیونی اورہنودکوپتاہے کہ ارطغرل ڈرامہ آج کے مسلمان نوجوان میں جو جذبے پیدا کررہا ہے وہ یقینا ان تمام طاقتوں کے لئے خطرے کی گھنٹی ہے جو صیہونی ہنودی منصوبوںکے حاشیہ بردار ہیں۔ ڈرامہ ارطغرل کا ہر کردار حقائق پر مبنی ہے ۔ تاریخی واقعات ،غیر مسلموں کے ساتھ حسن سلوک ، سرداری اور حکمرانی کا طریقہ ، جنگ کی تربیت ، دشمنوں کے نرغے میں پھنس جاتے وقت دفاع کیسے کرنا چاہیے ۔ اپنے لوگوں کے ساتھ جب جنگ کی نوبت آجائے تو کیا طریقہ اختیار کرنا چاہیئے۔مشکل حالات کا سامنا کیسے کرنا چاہیے۔ ایسی تمام چیزوں کی معلومات ملتی ہے ۔اس ڈرامے میں عیسائیوں کی سازشوں کو بڑی تفصیل سے دکھایا گیا ہے ،عالم اسلام کی نااتفاقی بھی بڑی ایمان داری سے دکھائی گئی ہے،مسلمانوں میں چھپے غداروں کو بھی بہت احسن انداز سے دکھایا گیا ہے۔ ڈرامہ میں معمولی رومانس کے ساتھ تصوف کو بھی بھر پور انداز میں پیش کیا گیاہے۔ یہ ڈرامہ مغرب اوربھارت کی ان تمام غلیظ فلموں، ڈراموں، سیریلز، ناولوں اور کتابوں کا بلا واسطہ جواب ہے جنہوں نے عریانیت، فحاشی اور جھوٹ کے ذریعہ اسلام اور تاریخی واقعات کو اپنے مفاد کے لیے مسخ کیا۔اسلام کو بدنام، مسلمان نوجوانوں کو مایوس، ذہنی طور پر برباد کرنیکی کوشش کی ہے، اور جن کو مسلمان نوجوان تقریبا سو سال سے دیکھتا آرہا تھا اور کوئی متبادل نہ ہونے کی وجہ سے ان کو صحیح مان کر اپنے مذہب سے متنفر اور اپنے آبا و اجداد سے کوسو ں دور ہورہا تھا. اس کا مخاطب اصلا وہ طبقہ ہے جو پہلے سے فلمیں اور سیریز وغیرہ ٹی وی پر دیکھتا آرہا ہے. یہ ڈرامہ بس ایک متبادل ہے جس نے اسلام کے کچھ اقدار کو اپنی مرکزیت میں رکھا ہے. اس میں موسیقی کے نام پر قدیم ترکی شاعری کا سہارا لیا گیا اور رقص سے مکمل اجتناب کیا گیا ہے. شروعات اور بوقت ضرورت جنگی میوزک اور پرانے دھن و غیرہ کا استعمال ہوا ہے. تمام مسلمان مرد و خواتین کے کردار کو، چاہے مثبت کردار میں ہو یا منفی کردار میں شرعی طور مناسب لباس میں پیش کیا گیا ہے۔