عالم اسلام کے رستے ناسوروں میں اسوقت یمن کی خانہ جنگی خاصی نمایاں ہے۔ دسمبر 2020میں اقوام متحدہ کی طرف سے جاری اعداد و شمار میں بتایا گیاکہ اس بدقسمت ملک میں پچھلے سات سالوں کے دوران د و لاکھ 33ہزار افراد خانہ جنگی اور اسکے نتیجے میں بھوک، افلاس اور بیماری سے لقمہ اجل ہوگئے ہیں۔ اسی طرح 24ملین مزید افراد فی الوقت یا تواپاہج ہوچکی ہے یا وباوٗں کی زد میں فرشتہ اجل کے ساتھ برسر پیکار ہے۔جزیرہ نماعرب کے جنوبی سرے پر واقع یمن اسوقت تین حصوں میں بٹا ہوا ہے۔ ایران کے حمایتی حوثی باغیوں کا علاقہ، صدر عبد الرب ہادی کی سعودی عرب کی حمایت یافتہ حکومت اور جنوب میں جنوبی عبوری حکومت ، جس کو متحدہ عرب امارات کی حمایت حاصل ہے۔ اس لئے نئے امریکی صدر جوائے بائیڈن نے جب پچھلے ہفتے یمن میں اپنے عرب حلیفوں کو ہتھیار فراہم کرنے پر پابندی لگانے کا اعلان کیا، تو مشرق وسطیٰ میں امید کی ایک کرن جاگ اٹھ گئی۔ بائیڈن انتظامیہ نے امریکی کانگریس کو بھی مطلع کردیاہے کہ اسکی پیشروٹرمپ حکومت نے اپنے آخری اوقات میں جس طرح یمن کے ایران نواز حوثی باغیوں کو غیر ملکی دہشت گردوں کے زمرے میں رکھ دیا، و ہ اس فیصلہ کو بدلنا چاہتی ہے۔ امدادی تنظیموں کا کہنا تھا کہ چونکہ ملک کی اکثر بندرگاہیں حوثی باغیوں کے قبضے میں ہے، اسلئے ان کو عالمی دہشت گرد قرار دینے سے امداد پہنچانا مشکل ہو جائیگا۔ نئی پالیسی کی رو سے امریکہ عرب اتحادی افواج کو یمن میں استعمال کیلئے میزائلوں کی ترسیل بند کردیگا اور ہوائی حملوں کیلئے درکار خفیہ اطلاعات کا تبادلہ بھی روک دیگا۔ ان ہوائی حملوں میں اکثر و بیشتر عام لوگ ہی مارے جاتے تھے۔ اسی طرح گلف خطے کے ماہر سفارت کار ٹموتھی لینڈرکنگ کو یمن کیلئے خصوصی نمائندہ مقرر کر کے بائیڈ ن نے علاقائی طاقتوں کو یہ پیغام پہنچایا ہے کہ وہ اس مسئلہ کا گفت و شنید کے ذریعے سفارتی حل چاہتے ہیں۔ اسکاٹ پال کے مطابق بائیڈن انتظامیہ کا یہ اب تک کا سب سے بڑا احسن قدم ہے اور اس سے لگتا ہے کہ امریکہ اب یمن کے معاملات اپنے ہاتھوں میں لینا چاہتا ہے۔ ابھی تک امریکہ نے یمن کے تمام امور اور اپنے مفادات سعودی عرب کی قیادت میں عرب اتحاد کے پاس ایک طرح سے گروی رکھے ہوئے تھے۔ مگر چند ماہرین کو خدشہ ہے کہ بائیڈن کے اس فیصلہ سے حوثی باغیوں کے حوصلہ بلند ہونگے اور ان کو اب بات چیت کی میز پر لانا مشکل ہو جائیگا۔ مگر بائیڈن کے اس قدم سے یہ بھی عندیہ ملتا ہے کہ نئی امریکی انتظامیہ نے پس پردہ ایران کے ساتھ بات چیت شروع کر دی ہے اور یہ قدم اسی کا شاخسانہ معلوم ہوتا ہے۔ ویسے تو سعودی عرب کو خوش کرنے کیلئے بائیڈن نے کہا کہ القاعدہ اور داعش کے خلاف آپریشن جاری رہینگے۔ امریکی تھنک ٹینک واشنگٹن سینٹر فار یمن اسٹیڈیز کے مطابق بائیڈن نے اپنی پالیسی میں جان بوجھ کر ابہا م رکھا ہے، تاکہ ایک طرف سعودی عرب اپنے دفاع سے متعلق کسی تشویش میں مبتلا نہ ہو، دوسری طرف ایران کے ہاتھ میں ایک گاجر تھما ئی جائے، تاکہ جوہری ڈیل پر ہونے والے مذاکرا ت کیلئے راہ ہموار کی جائے۔ حالیہ کچھ عرصہ تک یمن میں سعودی عرب اوراسکے عرب اتحادی، ایران کے ساتھ مسابقت کی جنگ میں مصروف تھے۔مگر اب اسمیں اسرائیل بھی کود پڑا ہے۔ ایک یمنی قبائلی لیڈر عیسیٰ سلیم بن یاقوت نے چند ماہ قبل انکشاف کیا تھاکہ متحدہ عرب امارات کی مدد سے اسرائیل نے سوکوترہ جزیرہ پر ایک جاسوسی مانیٹرنگ اسٹیشن قائم کردیا ہے۔ تین ہزار مربع کلومیٹر پر محیط یہ جزیرہ یمن کے ساحل سے 250 کلومیٹر دور خلیج عدن اور بحیرہ عرب کے جنکشن پر ایک اہم بحری گذرگاہ پر واقع ہے۔ پچھلے سال اسرائیلی اخبار اسرائیل ٹوڈے نے بھی خبر دی تھی کہ اسرائیلی حکام یمن میں متحدہ عرب امارات کے اتحادیوں ، جنوبی عبوری کونسل ک کمانڈروں سے خفیہ مذاکرات کر رہے ہیں۔ یہ بھی اطلاعات آئی تھی کہ اسرائیلی کمانڈوز کونسل کے عسکریوں کو تربیت بھی دے رہے ہیں۔ اسی لئے شاید کونسل کے نائب صدر حامی بن برک نے اسرائیل اور امارات کے درمیان ہوئے امن معاہدہ کو سراہا اور فلسطینیوں کو اس کی مخالفت کرنے کیلئے جم کر کوسا۔ امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے میں34 برسوں تک ایران ڈیسک پر کام کرنے والے ایک افسر نارمن رولے کا کہنا ہے کہ یمن کی جغرافیائی اور اسٹریجک پوزیشن کی وجہ سے امریکہ کیلئے اس خطہ میں خانہ جنگی روکنا ازحد ضروری ہو گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر یہ جنگ خشکی سے سمندر کی طرف بڑھتی ہے ، تو سبھی ممالک اس سے متاثر ہوسکتے ہیں۔ ویسے بھی اس علاقہ میں بحری قزاقوں نے بھی ناک میں دم کر کے رکھ دیا ہے۔ بائیڈن انتظامیہ کے طرف سے جو اشارہ مل رہے ہیں، ان کے مطابق سعودی عرب اور امریکہ کے درمیان تعلقات میں سرد مہری آنے کا اندیشہ ہے۔ ڈیموکریٹک پارٹی کے چوٹی کے لیڈران بضد ہیں کہ سعودی صحافی جمال خشوگی کے قتل کے سلسلے میں سعودی حکمرانوں خاص طور پر ولی عہد محمد بن سلمان کو کٹہرے میں کھڑا کردینا چاہئے۔ امریکی حکام شاہی خاندان میں اپنے حلیفوں کی نظر بندی اور ان کی بے عزتی پر بھی خفا ہیں۔ خشوگی اور یمن کی صورت میں امریکہ کو سعودی حکام کو زیر کرنے کے معقول بہانے مل گئے ہیں اور وہ ان کو ترپ کے پتوں کی طرح استعمال کریگا۔ 2011 میں بہار عرب کے وقت یمن میں بھی عوام نے علی عبداللہ صالح کی 34سالہ آمریت کے خلاف آواز بلند کی۔ جب حالات بے قابو ہونے لگے، تو اس نے اقتدار سے دستبردار ہوکر اپنے نائب عبدالربہ منصور ہادی کو اپنا جانشین بنایا۔ مگر کرپشناور نااہلی کی وجہ سے وہ بھی جلد ہی عوام میں غیر مقبول ہوگیا۔ اس افراتفری سے فائدہ اٹھا کر شمال میں شیعہ زیدی قبیلہ نے علم بغاوت بلند کیا، وہ کئی دہائیوں سے انصاراللہ کے نام سے صالح حکومت کے ساتھ برسرپیکار تھے۔ انہوں نے جلد ہی صعیدہ صوبہ پر قبضہ کیا۔ بد عنوانی اور بد انتظامی سے تنگ سنی قبائل نے بھی ان کا بھر پور ساتھ دیکر ان کو2014 میں دارلحکومت صنعا پر قبضہ کروانے میں مدد دی۔ صدر ہادی نے فرار ہوکرپہلے عدن میں اور پھر سعودی عرب میں پناہ لی۔ اس کے ساتھ ہی سعودی عرب نے آٹھ عرب ممالک کو اکھٹا کرکے یمن میںفضائی بمباری کرنا شروع کی، جس سے کئی ہزار افراد ابھی تک ہلاک ہو چکے ہیں۔ امریکہ ، برطانیہ اور فرانس نے عرب اتحاد کی فوجی اعانت کی۔ شورش سے فائدہ اٹھا کر ایک وسیع علاقے میں القاعدہ اور داعش نے بھی ٹھکانے بنادیے۔ جولائی 2019کو متحدہ امارات نے اس اتحاد سے کنارہ کشی کرکے جنوبی عبوری کونسل کی حمایت کا اعلان کیا، جس نے عدن کے علاقے میں ایک علیحدہ مملکت قائم کی۔ چند ماہ قبل سعودی عرب نے ہادی حکومت اور جنوبی کونسل کے درمیان مفاہمت کروانے کی کوششیں کی ، مگر ابھی تک وہ پروان نہیں چڑھ پائی۔ دوسری طرف امریکہ اب حوثیوں کے ذریعے داعش اور القاعدہ سے نمٹنا چاہتا ہے۔پچھلے کئی برسوں سے حوثیوں نے اخوان المسلمون سے تعلق رکھنے والے گروپ اصلاح کے کارکنان کا بھی ناطقہ بند کر رکھا ہے، جنہون نے صنعا پر قبضہ اور بہار عرب کے دوران حوثیوں کی مدد کی تھی۔ حوثی قبضے والے علاقوں میں اصلاح کے سینکڑوں کارکنان جیلوں میں بند ہیں۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ سبھی گروپ مل کر ایک وسیع البنیاد حکومت بناکر عالم اسلام کے سینے پر موجود اس ناسور کو ختم کروانے میں مدد کرکے عوام کو بھنور سے نکال کر ان کو پر امن زندگی جینے کا موقع فراہم کرواتے اور عالمی اور علاقائی طاقتوں کا کھلونابننے سے احتراز کرتے۔