فرض کیجئے کہ آپ ایک ایسے علاقے میں جاتے ہیں جہاں ہر شخص کی جلد کھردری اور بالکل ہی بے رونق ہے۔ اور اس کے اسباب پیدائشی یا قدرتی نہیں بلکہ اختیاری ہیں، یعنی ان کی اپنی کسی بے احتیاطی کے نتائج ان کی جلد پر مرتب ہوئے ہیں جبکہ آپ کی جلد بہترین صحتمند حالت میں ہے۔ چہرے کی سرخ و سفید رنگت اس علاقے کے ہر شخص پر ایک سحر سا طاری کر رہی ہے، کیونکہ جلد کی ایسی خوبصورتی کا انہوں نے کبھی تصور ہی نہ کیا تھا۔ تو ذرا سوچئے ان کے دل و دماغ میں پہلا سوال کیا پیدا ہوگا ؟ وہ آپ سے اس خوبصورتی کا راز پوچھیں گے۔ اور جب آپ انہیں بتائیں گے کہ آپ صاف پانی کا بکثرت استعمال کرتے ہیں، غذا میں توازن رکھتے ہیں، موسمی فروٹ کا بھی مناسب استعمال کرتے ہیں اور کھانے میں نمک کی مقدار بھی مناسب رکھتے ہیں وغیرہ وغیرہ تو یہ طے ہے کہ جو چیزیں آپ اپنی جلد کی خوبصورتی کے راز کے طور پر انہیں بتائیں گے وہ نہایت رغبت کے ساتھ انہیں اختیار کرلیں گے۔ اس کے برخلاف اگر آپ کسی ایسے علاقے میں جاتے ہیں جہاں کے لوگوں کی جلد کی شگفتگی آپ کی جلد سے بہتر ہو تو ظاہر ہے معاملہ برعکس ہوجائے گا۔اب آپ اس خوبصورتی کا راز جاننے کی تگ و دو میں ہوں گے۔ بعینہ اخلاق کا معاملہ ہے۔ جب ایک غیر مسلم کسی مسلمان کے اچھے اخلاق یعنی اس کے کردار کی خوبصورتی دیکھتا ہے تو وہ خوشگوار حیرت میں مبتلا ہوتا ہے کیونکہ یہ خوبصورتی وہ اپنے پاس نہیں پاتا۔ ایسی صورت میں اس کے دل و دماغ میں بھی یہی سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس خوبصورتی کا راز کیا ہے ؟ اور وہ اس راز تک ہر حال میں پہنچنا چاہتا ہے تاکہ یہ خوبصورتی اس کے کردار میں بھی پیدا ہوسکے۔ کون نہیں جانتا کہ کردار کی خوبصورتی تعلیمات میں مخفی ہوتی ہے۔ جب آپ اسے ان تعلیمات سے آگاہ کرتے ہیں تو وہ ان پر غور کرتا جاتا ہے اور جوں جوں اس کی سمجھ میں بات آتی جاتی ہے وہ ان تعلیمات کو اپناتا چلاجاتا ہے۔ اسلام قرونِ اولیٰ میں بھی اسی طرح پھیلا اور آج کی تاریخ میں بھی مغرب میں اس کے پھیلنے کے اسباب میں ایک اہم سبب یہی ہے۔ آپ جانتے ہیں ایوان ریڈلی طالبان کے کردار کی خوبصورتی دیکھ کر مسلمان ہوئی تھیں اور وہ بھی عین حالت جنگ کے اخلاق کی خوبصورتی جب انسان ویسے بھی طیش میں ہوتا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ہم پاکستان کے مسلمان کسی غیر مسلم کو تو کیا اپنے ہی دیگر مکاتب فکر کو بھی کردار کی خوبصورتی دکھانے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ کوئی ایک مسلک بھی ایسا نہیں جو باقی مسالک کے لئے کردار کی کشش رکھتا ہو۔ ہر مسلک کے پیروکار دوسرے مسالک سے تعلق رکھنے والوں کی کھال کھینچنے کے چکر میں رہتے ہیں۔ جب صورتحال ایسی ہوجائے تو پھر آپ کے سینے میں غزالی و رازی جتنا علم ہی کیوں نہ ہو وہ کسی کے لئے کشش کی وجہ ہی نہیں رکھتا۔ جب آپ ارشاد فرمائیں گے تو لوگ واہ ! واہ ! تو کرینگے لیکن ان کے عمل اور ان کی زندگی میں آپ کا ارشاد کوئی تبدیلی رونما نہیں کر سکے گا۔ آپ تعلیمات کی خوبیاں گنوائیں گے تو اس کے ذہن میں سوال پیدا ہوگا کہ یہ کیسی تعلیمات جن کے مظاہر تعمیری نہیں تخریبی ہیں. سو ہمیں سب سے پہلے اپنے کردار میں خوبصورتی پیدا کرکے دیگر مسالک کے لئے باعث کشش بننا ہوگا۔ یہ کام جس مسلک نے بھی کر لیا وہ دوسروں کو اپنی جانب کھینچتا چلا جائے گا۔ تب آپ کو کسی کو دعوت نہیں دینی پڑے گی بلکہ لوگ آپ سے دعوت لینے خود آئیں گے۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم کردار تو ٹھیک نہیں رکھنا چاہتے اور امید کرتے ہیں کہ لوگ ہمارے مکتب فکر سے وابستہ ہوجائیں۔ ہم ناممکن کی طلب میں ہیں۔ پہلے اپنے آپ کو دیگر مکاتب فکر کے لئے پر کشش بنانا ہوگا، جب ایسا ہوگا تو پھر اس کشش کے اسباب وہ ہم سے خود پوچھیں گے اور جب یہ مرحلہ ہم سر کر جائیں گے تب کہیں جا کر ہم کسی غیر مسلم کے لئے بھی کشش کا باعث بن سکیں گے۔ ہم میں سے ہر مسلک کا نمائندہ دوسرے مسلک کے لوگوں کے لئے دل میں بغض لئے پھر رہا ہے جس کے نمونے ہم تقریر و تحریر میں روز دیکھتے ہیں۔ سیدھی سی بات ہے کہ تمام مسالک اعتقادی مسالک ہوتے ہیں۔ آپ کو یہ بات ماننی ہوگی کہ جس اخلاص کے ساتھ آپ نے ایک مسلکاختیار کر رکھا ہے اسی اخلاص کے ساتھ دوسروں نے دوسرے مسالک اختیار کر رکھے ہیں۔ لہٰذا جتنا احترام آپ اپنے مسلک کا کرتے ہیں اتنا ہی احترام پر وہ بھی حق رکھتے ہیں۔ آپ پہلے کیچڑ اچھال کر پھر اپنی حقانیت کی دلیلیں پیش کریں گے تو یہ دلیلیں بھی بدبو دیں گی۔ اگر محض دعوت دینے سے کسی میں تبدیلی رونما ہوتی تو کونسا مسلک ہے جو یہ دعوت نہیں دیتا ؟۔ زبانی، صوتی اور کتابی کونسی دعوت ہے جو کوئی بھی مسلک نہیں دے رہا؟ لیکن وہ آڈیوز اور کتابیں میرے لئے تب پرکشش بنتیں جب مجھے ان لوگوں کے کردار میں بھی کوئی کشش نظر آتی۔اگر شکر چائے میں ڈل کر اسے میٹھا کرنے کے بجائے نمکین کر رہی ہے تو وہ شکر نہیں ہو سکتی۔ سوچنے کی بات ہے کہ ہمارے کردار میں کڑواہٹ کہاں سے آرہی ہے ؟ کہیں ہم شکر کے دھوکے میں اپنے دل و دماغ میں نمک تو نہیں انڈیل رہے ؟ ہمارا علم ہماری زبان اور ہمارے قلم سے تو جاری ہوتا ہے لیکن ہمارے اخلاق سے اس کی کرنیں نہیں پھوٹتیں۔ اس سقم کو دور کئے بنا ہم داعی تو کیا ایک مناسب درجے کے مسلمان بھی نہیں بن سکتے !