کشمیری اسکالرمنان وانی شہیدکون تھااوربھارتی جاسوس ایجنسیاں اس سے خوفزدہ کیوں تھیں؟مقبوضہ کشمیرکاخوبصورت ترین علاقہ وادی لولاب کے فلک بوس پہاڑیوں کے دامن میں واقع ٹکی پورہ گائوں میں معروف علمی گھرانے بشیر احمد وانی کے گھر میں 1990 کو منان پیدا ہوا۔ گھر میں تعلیمی ماحول ہونے کی وجہ سے منان نے ابتدائی تعلیم مقامی پرائمری اسکول ٹکی پورہ سے حاصل کی جس کے بعد انہوں نے دسویں جماعت کا امتحان جواہر نودودھیا ودھالیہ پتو شاہ لولاب جبکہ بارہویں جماعت سینک اسکول مانسبل سے پاس کیا۔ تعلیمی سلسلے کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے گریجویشن سرینگر کے امرسنگھ کالج سے کی ۔اپنے تعلیمی کیرئر کو جاری رکھنے کے لیے منان وانی نے بیرون ریاست سفر شروع کرتے ہوئے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں داخلہ لیا جہاں انہوں نے پوسٹ گریجویشن، ایم فل کے علاوہ ’’شعبہ جیالوجی اینڈ مائینگ ‘‘میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ اس دوران موصوف نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں سٹوڈنٹ ایکٹوازم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہوئے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا جبکہ بیرون ریاست مختلف سیمیناروں، سیمپوزیموں اور مباحثوں میں انہوں نے حصہ لیتے ہوئے کشمیر کا نام روشن کیا۔ اس دوران 5جنوری 2018کو منان اچانک علی گڑھ یونیورسٹی سے مفقودالخبرہوگیاجس کے چند دنوں بعد موصوف کی تصویر سوشل میڈیا سائٹس پر وائرل ہوئیں جہاں انہوں نے جہادکشمیرکی صف اول میں شمولیت کا برملا اعلان کیا جس کے بعد پوری وادی اور بیرون ریاست میں اعلی تعلیم یافتہ نوجوان کی مجاہدین کی صف میں شامل ہونے پر زبردست ہلچل مچ گئی۔ ڈاکٹر منان وانی کے والدبشیر احمد وانی محکمہ تعلیم میں بطور لیکچرار تعینات ہیں جبکہ ان کے بڑے بھائی انجینئر ہیں۔ تقریباً 10ماہ تک جنگجوئوں کے ساتھ سرگرم رہنے کے بعد منان 11اکتوبر کو شاٹھ گنڈہندواڑہ میںقابض بھارتی فوج کے ساتھ ہونے والی ایک معرکہ آرائی میں شہید ہوا ۔ اس طرح اعلی تعلیم یافتہ مجاہدکمانڈر منان وانی کیلئے عسکری جدوجہدکاسفر8ماہ پرمحیط رہا۔منان وانی کے ساتھ دوسراکشمیری مجاہدجوشہیدہوااس کا نام عاشق حسین زرگر ولد محمد سلطان ساکن تلواری لنگیٹ تھا۔ شہید کشمیری اسکالر منان وانی کو 2016میں بھوپال میں منعقدہ ایک سمینار میں انعام واکرام سے نوازاگیا۔علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی وئب سائٹ پر لکھاکہ منان وانی نے 2016 میں پانی، ماحولیات، موسمیات و معاشرہ ’’واٹر، انورمنٹ، ایکولجی اینڈ سوسائٹی‘‘پر منعقدہ عالمی کانفرنس میں بہترین مقالے کیلئے ایوارڈ بھی حاصل کیا تھا۔مسلم یونیورسٹی آف علی گڑھ کی وئب سائٹ کے مطابق منان وانی کو ان کے مقالے وادی لولاب میں واٹر شیڈ تجزیہ ’’ریموٹ سینسگ اور جی آئی ایس تکنیک کو بروائے کار لاتے ہوئے‘‘سے سیلابی خطرے کا احاطہ کیا گیا۔ اس کانفرنس میں20مختلف ملکوں سے قریب 400 مندوبین نے شرکت کی تھی۔اس کانفرنس میں امریکہ، آسٹریلیا، جنوبی افریقہ، مصر، کینڈا، ایران، اٹلی، برطانیہ، بنگلہ دیش، چین، جنوبی کوریا، کویت، تیونس‘ ملائیشیا‘ ویسٹ انڈیز، برازیل اور یمن کے مندوبین نے اپنے مقالے پیش کئے تھے۔ منان وانی 2016 میں علی گرھ مسلم یونیورسٹی کی اسٹوڈنٹس یونین کے انتخاب کے دوران متحرک تھے اور ایک آن لائن پورٹل (thecompanion.com) کیلئے سیاست پر کئی مضمون تحریر کئے تھے۔اس سائٹ پر منان وانی کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ایک ریسرچ اسکالر جوطلاب کارکن ہے،کے بطور متعارف کیا گیا،جس کو عالمی سیاست اور اسلامی تحریکوں کی بحالی نو میں دلچسپی ہے۔منان وانی نے امسال 17 جولائی کو بھارت کے نام ایک کھلا خط بھی تحریر کیا، جس میں انہوں نے ان بنیادی وجوہات کی نشاندہی کی جن کے باعث کشمیرکے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان مجاہدین کے صفوں میں شمولیت اختیار کرتے ہوئے قلم وقرطاس چھوڑ کربندوق کیوں اٹھاتے ہیں۔ بھارت کے نام اس کھلے خط میں منان وانی رقمطرازہیں کہ ’’ میری پیدائش سے ہی میں فوجی بوٹوں سے محصور ہوں، یہاں تک کہ میرے سکول کی تقریبات بھی فوجی کیمپوں میں منعقد ہوتی تھیں۔ میری بنیادی، ابتدائی تعلیم کو بھی فوجی اساس میسر ہے۔ مجھے جواہر نوودھیاودھیالے’’جوکہ ریاست جموں کشمیر میں بھارتی جارحیت، تسلط کا تعلیمی پھیلا ہے‘‘میں پڑھایا، سکھایا گیا۔ تب، بھارت کے متعلق یری سماں بندی، لفظی تصاویر میٹھا سپنا تھا، اور میری آرزو، امنگ ایک سچے بھارتی کے ہوبہو تھیں۔ سرینگر کے ایک کا لج سے گریجویشن کی اور مکالمے، خطبے، تذکرے سمجھنے میں مصروف تھااور وجود کے فرق کو پہچانا۔ میں سیاست پڑھ رہا تھا، سائنس سیکھ رہا تھااورخیالات کے سلسلوں پر غوروفکر کررہاتھا۔ میں اردگرد دیکھ رہا تھا اور سماج میں اپنے مقام کو پہچان رہاتھا۔ میں پل بڑھ رہا تھا، باہم دگر عمل پیرا اور معرفت حاصل کررہا تھا۔ 2009سے، میں اپنی عقل و دانش کی مرکب سازی کرنا شروع ہوگیا، اور میں نے اپنا تنقیدی، تبصرہ تحقیق تیار کیا۔ مجھے جامعہ کشمیر کے لیے منتخب کیا گیا، تاہم اس کی گھٹن نے مجھے، میرا ذہن تبدیل کرنے پر قائل کیا۔ میں نے علی گڑھ کے مقام پر بھارت کی ممتاز جامعہ کا انتخاب کیا۔جو کہ آج قانون اور انصاف کی عدالت میں اپنی تاریخ کی جنگ لڑرہی ہے۔ میری خوبصورت مادرعلمی کا وجود خون مسلم کے مرہون منت ہے۔ اور آ ج یہ ہندتوا (Hindutva)کی سفاکی، بیدردی کا سامنا کررہی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ بانی، موسس کی روح، جذبہ، فسطائیوں کی شکایت آ میزی کو زیر کرلے گا، کچل ڈالے گا، اور میرا گلستان پھلے گا پھولے گا، شباب پر ہوگا۔ میری یونیورسٹی کی زندگی، ایم فل اور پی ایچ ڈی کی ڈگری سے کہیں آ گے کی ہے۔میں سیاسی تھا اور سرگرم، مستعد بھی۔ ڈھابوں نے میرے شکم، چھاتی، سینہ اور دماغ کو خوراک دی ہوگی۔میں نے مہمات کی قیادت کی یہاں تک کہ طالبعلم لیڈروں کو راج گدی تک پہنچایا،اورمتنازعہ ہال تک پہنچے، جہاں اب بھی بانی پاکستان کی تصویر آویزاں ہے جو اس شناخت کو علامتی طور پیش کررہی ہے جس کی بھارتی مسلمان کو پھر شائد ضرورت پڑے،ششی تھرور کے ابھرتے انڈیا میں۔