اسلام آباد (خبر نگار،92نیوز رپورٹ،صباح نیوز)عدالت عظمیٰ نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے بارے میں صدارتی ریفرنس کو نمٹاتے ہوئے قرار دیا ہے کہ پارٹی پالیسی سے انحراف کرنے والے رکن اسمبلی کا ووٹ شمار نہیں ہوگا۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں5 رکنی لاجر بنچ نے تین دو کے اکثریتی فیصلے کے تحت منحرف رکن کی نااہلیت کا معاملہ پارلیمنٹ کو بھیج دیا جبکہ منحرف ارکان کی تاحیات نااہلی کے بارے پی ٹی آئی کی پٹیشن مسترد کردی۔ دو جج صاحبان جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل اور جسٹس جمال خان مندو خیل نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے صدارتی ریفرنس کا جواب نہیں دیا اور قرار دیا کہ آرٹیکل 63اے ایک مکمل کوڈ ہے ، عدالت اس کی تشریح کی مجاز نہیں۔چیف جسٹس سمیت جسٹس اعجازلاحسن اور جسٹس منیب اختر نے صدارتی ریفرنس میں اٹھائے گئے تین سوالت پر اپنی رائے دیدی جبکہ ایک سوال صدر مملکت کو واپس بھیج دیا ۔اکثریتی ججوں نے اپنی رائے میں قرار دیا ہے کہ پارلیمانی جمہوریت میں سیاسی جماعتوں کا کردار کلیدی ہے ،سیاسی جماعتیں وہ جزو لازم ہے جس کے بغیر پارلیمانی جمہوریت کھڑی نہیں ہوسکتی اور انحراف وہ راستہ ہے جس سے سیاسی جماعتوں کو غیر مستحکم کیا جاسکتا ہے ۔مزید کہا گیا ہے کہ آرٹیکل 63 اے کا مقصد ارکان کو انحراف سے روکنا ہے ، منحرف ارکان کاووٹ نہیں گنا جائے گا، آرٹیکل 63 اے کی اصل روح ہے کہ سیاسی جماعت کے کسی رکن کو انحراف نہ کرنا پڑے اور جماعتوں کو حقوق کا تحفظ ملے ۔ آرٹیکل 63 اے اکیلا پڑھا نہیں جاسکتا، آرٹیکل 63 اے کو ر آرٹیکل 17 کے ساتھ مربوط کیا جائے گا اور آرٹیکل 17سیاسی جماعتوں کے حقوق کو تحفظ دیتا ہے ، سیاسی جماعتوں میں استحکام لازم ہے ، آرٹیکل 63اے کا اطلاق پارلیمانی پارٹی ہدایات سے انحراف سے ہوتا ہے ، آرٹیکل 63 اے آرٹیکل 17 ٹو میں دیے گئے سیاسی جماعتوں کے حقوق کاتحفظ کرتاہے ، آرٹیکل63 اے قانون سازی میں سیاسی جماعتوں کو تحفظ دیتا ہے ، سیاسی جماعتیں ہماری جمہوریت کا بنیادی جز ہیں، سیاسی جماعتوں میں عدم استحکام جمہوریت کی بنیاد ہلاتا ہے ، انحراف سیاسی جماعتوں کے استحکام کیلئے تباہ کن ہے ، انحراف کو کینسر قرار دینا درست ہے ، موزوں یہی ہے کہ انحراف ہونا ہی نہیں چاہیے ، سیاسی جماعتوں کی ہم آہنگی کا احترام کیا جانا چاہیے ، سیاسی جماعتوں کو غیر آئینی، غیرقانونی حملوں اور توڑپھوڑ سے محفوظ رکھا جائے ، سیاسی جماعتوں کے حقوق کا تحفظ کسی رکن کے حقوق سے بالا ہے اس لیے منحرف رکن کا ووٹ شمار نہیں ہوسکتا۔اکثریتی رائے میں منحرف رکن کی نااہلیت پر رائے دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ارکان کی نااہلی کیلئے قانون سازی کرنا پارلیمان کا اختیارہے جبکہ مستقبل میں انحراف روکنے کا سوال عدالت نے صدرکو واپس بھجوا تے ہوئے قرار دیا کہ یہ مبہم سوال ہے ۔ اختلافی ججوں نے قرار دیا کہ آئین کے تحت منحرف ارکان ڈی سیٹ ہوجاتے ہیں ،آرٹیکل 63اے ایک مکمل شق ہے اسے تشریح کی ضرورت نہیں ،اس کی تشریح سے دیگر شقیں متاثر ہوں گی۔اقلیتی رائے میں کہا گیا ہے کہ عدالت نہ تو آئین کو دوبارہ لکھ سکتی ہے اور نہ اپنی تشریح دے سکتی ہے ۔ تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پارلیمانی پارٹی کی ہدایات کے خلاف رکن کا ووٹ شمار نہیں ہوگا۔دوران سماعت چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس د یتے ہوئے کہا کہ ڈیرھ ماہ سے صدارتی ریفرنس کو سن رہے ہیں، قابل سماعت ہونے سے معاملہ کافی آگے نکل چکا ہے جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالتی آبزرویشنز سے اتفاق نہیں کرتا لیکن سر تسلیم خم کرتا ہوں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ خیانت کی ایک خوفناک سزا ہے ، اٹارنی جنرل نے کہا کہ اگر کوئی وزیر اعظم عوام سے کیے وعدہ پورے نہ کرے تو کیا ہوگا توجسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ اس صورت میں ارکان استعفے دے دیں۔عدالت میں مسلم ن لیگ کے وکیل مخدوم علی خان کے معاون وکیل نے تحریری گزارشات جمع کرائیں۔تحریری گزارشات میں عدالت سے دلائل کیلئے مہلت مانگی گئی اور موقف اپنایا گیا کہ حالات تبدیل ہوگئے ہیں، حالات کی تبدیلی کے بعد انہیں موکل سے نئی ہدایات لینے کیلئے وقت دیا جائے ۔سماعت کے دوارن اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے سپریم کورٹ سے سوشل میڈیا کی شکایت کی تو چیف جسٹس نے ان کو سوشل میڈیا نہ دیکھنے اور سنجیدہ چیزیں پڑھنے کی ہدا یت کی۔اٹارنی جنرل اشتر اوصاف علی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ دیکھنا ہوگا کہ کیا آرٹیکل 63 اے ایک مکمل کوڈ ہے ، دیکھنا ہوگا کہ آرٹیکل63 اے میں مزید کچھ شامل کرنے کی ضرورت ہے یا نہیں، یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ پارٹی پالیسی سے انحراف کرکے ووٹ شمار ہوگا، عدالت ایڈوائزی اختیار میں صدارتی ریفرنس کا جائزہ لے رہی ہے ، صدارتی ریفرنس اورقانونی سوالات پرعدالت کی معاونت کروں گا۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ صدارتی ریفرنس پر کافی سماعتیں ہوچکی ہیں، آرٹیکل 17 دو اور 63 اے سیاسی جماعت کے حقوق کی تحفظ کی بات کرتا ہے ، تکنیکی معاملات پر زور نہ ڈالیں، مارچ میں صدارتی ریفرنس آیا تھا، ڈیرھ ماہ سے کیس سن رہے ہیں، صدارتی ریفرنس کے قابل سماعت ہونے سے معاملہ کافی آگے نکل چکا ہے ۔اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے کہا یہ تکنیکی نہیں آئینی معاملہ ہے ، صدارتی ریفرنس میں قانونی سوال یا عوامی دلچسپی کے معاملہ پر رائے مانگی جاسکتی ہے , انحراف پر رکن کے خلاف کارروائی کا طریقہ کار آرٹیکل63 اے میں ہے ، آرٹیکل63 اے کے تحت انحراف پر اپیلیں عدالت عظمی میں ہی آئیں گی، صدر کے ریفرنس پر رائے دینے سے اپیلوں کی کارروائی پر اثر پڑے گا، آرٹیکل 63 اے کے انحراف سے رکن خودبخود ڈی سیٹ نہیں ہو جاتا، انحراف کرنے پررکن سے شوکازنوٹس کے ذریعے وضاحت مانگی جاتی ہے ، سربراہ وضاحت سے مطمئن نہ ہوتواس صورت میں ریفرنس بھیج سکتا ہے ۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کیا صدر مملکت نے پارلیمنٹ میں اپنی سالانہ تقریر میں انحراف کا معاملہ اٹھایا؟ کیا پی ٹی آئی سمیت کسی جماعت نے 63 اے کی تشریح یا ترمیم کیلئے کوئی تجویز دی؟تو اٹارنی جنرل نے بتایا سینیٹ میں ناکامی کے بعد سابق وزیراعظم نے ارکان کو کوئی ہدایات جاری نہیں کیں، ایک بار عمران خان نے ارکان سے اعتماد کا ووٹ لینے سے پہلے بیان جاری کیا تھا اور کہا تھا ارکان اپنے ضمیرکے مطابق مجھے اعتماد کا ووٹ دینے کا فیصلہ کریں، عمران خان نے کہا مجھے میرے ارکان اعتماد کا ووٹ نہیں دیں گے تو گھر چلا جاوں گا،جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ پارٹی سربراہ کی صوابدید ہے کہ ووٹ کیلئے ہدایات جاری کریں یا نہ کریں،اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدم اعتماد کی تحریک کے وقت بھی عمران خان ہی وزیراعظم تھے ، سابق وزیراعظم عمران خان نے اپنے پہلے موقف سے قلابازی لی۔جسٹس اعجازالاحسن نے سوال کیا کہ کیا وزیراعظم کیلئے اپنی دی گئی ہدایات میں تبدیلی کی ممانعت ہے ؟اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے بتایا کہ وزیراعظم نے آئین کے تحت حلف لیا ہوتا ہے ، وزیراعظم قومی ٹیلی وژن پردیے گئے بیانات سے پھرنہیں سکتا۔جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ کیا انحراف کرنا بددیانتی نہیں ہے ؟ کیا انحراف کرنا امانت میں خیانت نہیں ہوگا؟ کیا انحراف پرڈی سیٹ ہونے کے بعد آرٹیکل 62 ون ایف کا اطلاق ہوسکتا ہے ؟ کیا انحراف کرکے ڈالا گیا ووٹ شمار ہوگا؟ ان سوالات کے براہ راست جواب دیں۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آرٹیکل 186 میں پوچھا سوال حکومت کی تشکیل سے متعلق نہیں ہے ؟اٹارنی جنرل نے کہا کہ ماضی میں ایسے واقعات پر صدرمملکت نے ریفرنس نہیں بھیجا، عدالت صدارتی ریفرنس کو ماضی کے پس منظرمیں بھی دیکھے ۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ صدر کو صدارتی ریفرنس کیلئے اٹارنی جنرل سے قانونی رائے لینے کی ضرورت نہیں، آرٹیکل 186 کے مطابق صدر مملکت قانونی سوال پر ریفرنس بھیج سکتے ہیں، انہوں نے اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ کیا آپ صدر کے ریفرنس سے لاتعلقی کا اظہار کر رہے ہیں؟اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ مجھے حکومت کی طرف کوئی ہدایات نہیں ملیں، عدالت کی معاونت کر رہا ہوں، اپوزیشن اتحاد اب حکومت میں آچکا ہے ، اپوزیشن کا حکومت میں آنے کے بعد بھی صدارتی ریفرنس میں موقف وہی ہوگا جو پہلے تھا۔جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیا کہ کیا آپ کہہ رہے ہیں ریفرنس ناقابل سماعت ہے ؟ کیا آپ کہہ رہے ہیں کہ ریفرنس کو جواب کے بغیر واپس کر دیا جائے ؟جسٹس منیب اختر نے کہا کہ سابق اٹارنی جنرل نے ریفرنس کو قابل سماعت قرار دیا، بطور اٹارنی جنرل آپ اپنا موقف دے سکتے ہیں۔اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے کہا کہ ریفرنس سابق وزیراعظم کی ایڈوائس پر فائل ہوا تھا۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہاکہ کیا یہ موجودہ حکومت کاموقف ہے ؟ اشتر اوصاف نے جواب دیا کہ یہ میرا موقف بطور اٹارنی جنرل ہے ، سابق حکومت کا موقف پیش کرنے کیلئے ان کے وکلا موجود ہیں۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ صدرمملکت کو قانونی ماہرین سے رائے لے کر ریفرنس فائل کرنا چاہیے تھا، قانونی ماہرین کی رائے میں تضاد ہوتا تو صدر مملکت ریفرنس بھیج سکتے تھے ۔سماعت کے بعد عدالت نے فیصلہ محفوظ کرلیا جو بعد میں سنایا گیا۔سماعت کے دوران مداخلت پر چیف جسٹس عمر عطابندیال نے پی ٹی آئی کے وکیل بابر اعوان کی سرزنش کردی۔چیف جسٹس نے کہا عدالت کی نظر میں کوئی پارٹی چھوٹی بڑی نہیں، یہ کیس پارٹی کے سائز کی وجہ سے نہیں بلکہ آئین کی تشریح کیلئے سنا۔ عدالت نے بابر اعوان کو مزید دلائل کیلئے دس منٹ دینے کی استدعا مسترد کر دی۔