حکومت ہی نہیں خود مولانا فضل الرحمن بھی مخمصے میں معلوم ہوتے ہیں کہ آخر اس چڑھائی کا جسے وہ آزادی مارچ کا نام دیتے ہیں مقصد ہے کیا۔میں نے خلوص دل سے جاننا چاہا کہ مولانا چاہتے کیا ہیں اور ان کی اس چاہت میں اپوزیشن ان کا نیم دلی سے ساتھ کیوں دے رہی ہے۔ایک بات تو طے ہے کہ مولانا جن کی فہم و فراست کی مثالیں دی جاتی ہیں،یونہی تو کوئی قدم اٹھانے سے رہے۔ انہوں نے اپنے اسی تاثر کو ترپ کا پتا بنا لیا ہے اور باقی اپوزیشن کو الجھن میں ڈالا ہوا ہے۔ یعنی کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔کہیں سے تو اشارہ ہے ورنہ مولانا صاحب ایسے بھی ناعاقبت اندیش نہیں کہ اندھی سڑک پہ بگٹٹ دوڑتے چلے جائیں۔ وہ جہاں کہیں بھی باگ موڑتے ہیں، سوچ سمجھ کر ہی موڑتے ہیں ۔ آپ کو مشرف دور کے 2002 کے انتخابات تو یاد ہونگے۔ جی ہاں وہی جب متحدہ مجلس عمل نے صوبہ سرحد میں حکومت بنالی تھی اور مشرف نے کہا تھا کہ تاریخ میں پہلی بار اتنی بڑی تعداد میں داڑھی والے اسمبلی میں بیٹھے ہیں۔ اسی دور میں آئین میں سترہویں ترمیم کی گئی،جس کے تحت ایک آمر کے تجویز کردہ لیگل فریم ورک کو آئین کا حصہ بنایا گیا۔متحدہ مجلس عمل اس غیر آئینی اقدام کو آئین کا جامہ پہنانے میں پوری طرح شریک کار رہی۔ آئین کے آرٹیکل 63(1) کو 2004 ء سے نافذ العمل قرار دیا گیا جس کی رو سے کوئی شخص دو سیاسی عہدے نہیں رکھ سکتا تھا یعنی سیاسی عہدہ اور سرکاری ملازم لیکن بعد میں اسی پارلیمان نے وہ عمومی قانون منظور کیا جس کی رو سے فوجی آمر جو ایک منتخب حکومت کا تختہ الٹ کر آیا تھا، دونوں عہدے یعنی صدارت اور فوج کی سربراہی اپنے پاس رکھ سکتا تھا۔اسی ترمیم کی رو سے ایک فوجی آمر نے نہایت اطمینان کے ساتھ یکم جنوری 2004 ء کو پارلیمان سے چھپن فیصد ووٹ کے کر خود کو صدر مملکت کے عہدے پہ فائز کرلیا جو قومی اور صوبائی اسمبلیاں تحلیل کرکے و زیر اعظم کو فارغ کرنے کا پورا اختیار رکھتا تھا۔یوں جمہوریت مشرف بہ مشرف ہوئی اور مولانا فضل الرحمن پورے شرح صدر کے ساتھ اس میں شریک رہے۔بعد ازاں مولانا فضل ارحمن نے بارہ مئی کے سانحے کے بعد قاضی حسین احمد کے ساتھ کراچی کا دورہ کیا تو کسی گستاخ نے انہیں یاد دلایا کہ کراچی میں سارا دن خون کی ہولی کھیلے جانے کے بعد جس آمر نے مکا لہرا کر کہا تھا کہ طاقت عوام کی ہے تو اسے قانونی اور آئینی تحفظ آپ نے ہی فراہم کیا تھا، تو وہ اس غریب پہ خوب گرجے برسے ۔ فرمایا دغا مشرف نے کی ہے ، برا بھلا بھی اسے ہی کہو۔ انہیں کسی نے سمجھایا نہیں کہ وفا بھی حسن ہی کرتا تو آپ کیا کرتے۔ ایک صوبے میں بلاشرکت غیرے حکومت، ایک میں مخلوط حکومت اور قومی اسمبلی میں نشستیں ، کشمیر کمیٹی کی سربراہی کے بعد بھی ان کا خیال تھا کہ کوسنے دغا باز صنم کو ہی دینے چاہییں۔یاد رہے کہ صوبہ سرحد میں متحدہ مجلس عمل نے اکثریتی نشستیں مشرف کی امریکہ نوا ز پالیسی کے خلاف عوامی جذبات کو انگیخت کرکے حاصل کی تھیں۔ مشرف ایک مثالی لبرل تھا جس کا آئیڈیل کمال اتاترک تھا۔وہ کتے پالنے اور شراب و شباب کی محفلوں کا دلدادہ بھی تھا اور خود بھی گا بجا لیتا تھا۔ کل ملا کر نفاذ شریعت کے نعرے کیلئے ماحول گرم تھا جس سے متحدہ مجلس عمل نے فائدہ اٹھایا اور ایک صوبے میں حکومت بنالی، جہاں دل کھول کر مغرب نواز حکومت کے لتے لئے جاسکتے تھے اور دوسری طرف مرکز میں اسی حکومت کو آئینی جواز بھی فراہم کیا جانا تھا۔اس وقت تحریک انصاف اور عمران خان کسی شمار قطار میں ہی نہ تھے البتہ نیٹو سپلائی کی بندش اور دہشت گردی کیخلاف امریکی جنگ میں پاکستان کو جھونک دینے کیخلاف عمرا ن خان کی آواز اس وقت بھی بلند تھی اور آج بھی ہے۔ایک دبنگ فوجی آمر کے ہوتے ہوئے مذہب کارڈ کا استعمال جس کا پورا پورا موقع تھا،متحدہ مجلس عمل کو ایک صوبے کی سالم اور دوسرے کی مخلوط حکومت دے گیا۔ کیا خوب فہم و فراست تھی جس نے وکٹ کے دونوں جانب کھیلنا سکھایا۔ اب مسائل کچھ اور ہیں۔ مجھے واقعتا علم نہیں کہ مولانا اس حکومت سے کیا چاہتے ہیں۔ انہیں انتخابات کے نتائج پہ اعتراض تھا اور انہوں نے اسی وقت اس کا اظہار بھی کردیا تھا اور کہا تھا کہ منتخب اراکین اسمبلی کو حلف نہیں اٹھانا چاہئے لیکن برا ہو اس قومی اسمبلی کا جس کی نشستوں میں عجیب ہی کشش ہے۔ باقی حزب اختلاف کو تو چھوڑیئے خود متحدہ مجلس عمل کے سولہ اراکین نے حلف اٹھالیا جن میں ان کے اپنے صاحبزادے اسعد محمود بھی شامل ہیں جنہیں بعد میں مذہبی امور کی کمیٹی کا سربراہ بھی بنا دیا گیا۔ اب یا تو مولانا اپنے صاحبزادے سمیت سولہ استعفے لیں تاکہ اپوزیشن ہی نہیں حکومت کو بھی ان کی سنجیدگی کا اندازہ ہو، لیکن وہ تو اس عمران خان سے استعفی کے لئے یہ سارا تماشہ لگا رہے ہیں جسے وہ سلیکٹڈ وزیر اعظم کا خطاب دیتے ہیں۔ ایک سلیکٹڈ وزیر اعظم استعفی کس کو اور کیونکر دے گا ،مولانا اس کی وضاحت بھی فرمادیں۔اگر انتخابات جعلی تھے تو عمران خان کی طرح ان حلقوں کی نشاندہی کریں جہاں دھاندلی ہوئی ہے اور نام لے لے کر کوسنے دینا شروع کریں شاید کسی کے کان پہ جوں رینگ جائے۔مولانا اس پہ بھی تیار نہیں ہیں چنانچہ ہو یوں رہا ہے کہ ان کا لہجہ تلخ اور الفاط تلخ تر ہوتے جارہے ہیں۔ اسی تلخی میں انہوں نے کچھ ریٹائرڈ جرنیلوں کو شٹ اپ کال ہی نہیں دی بلکہ اسرائیل کے پے رول پہ ہونے کا سنگین الزام بھی لگایا۔ اس سے قبل و ہ وزیر اعظم عمران خان پہ یہودی ایجنٹ ہونے کا برملا الزام لگاتے رہے ہیں، اب بات جرنیلوں تک آگئی ہے۔مولانا کو سمجھ نہیں آرہی کہ اگر عمران خان اور فوج ایک پیج پہ ہے اور دونوں اسرائیل کے پے رول پہ ہیں تو ان سے نبٹنا اکتوبر میں کسی ڈھلمل مارچ کے بس کی بات تو نہیں۔یہ بھی ہے کہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ تو تین بار منتخب وزیر اعظم نواز شریف کا کامیاب نہیں ہوا کیونکہ بات میں دم اس وقت پیدا ہوتا جب آپ خود کسی آمر کے کاندھے پہ چڑھ کر کرسی نشین نہ ہوئے ہوں۔مولانا مدارس کے بچوں سے گارڈ آف آنر کروا کر اسٹیبلشمنٹ کا کیا بگاڑ لیںگے جبکہ وہ خود ایک آمر کے دور میں وزارتوں کے مزے لوٹ چکے اور اس کے اقتدار کو آئین کا کاندھا دے چکے۔