وزیر اعظم عمران خان نے ملک میں منصوبہ بندی کوانتخابی مقاصد کے تابع رکھنے کو پسماندگی کی وجہ قرار دیتے ہوئے طویل المدتی منصوبہ بندی پر زور دیا ہے۔ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ڈیموں کی تعمیر، بجلی کے منصوبے، زرعی ترقی ، برآمدی شعبے کا استحکام اور جدید ٹیکنالوجی کے حوالے سے قومی اہداف اس لیئے حاصل نہ ہو سکے کہ سابق حکومتیں صرف اپنے دور کے ان منصوبوں کو مکمل کرنے میں دلچسپی رکھتی تھیں جن سے آئندہ انتخابات میںووٹروں کی حمایت مل سکے ۔پاکستان اکیس کروڑ سے زاید نفوس کی آبادی ہے، وطن عزیز کو تمام موسموں کی نعمت میسر ہے،زرخیز میدان، پہاڑی سلسلے ، وسیع صحرا ، سمندری علاقے موجود ہیں، جغرافیائی اعتبار سے پاکستان کا محل وقوع تجارت اور دفاع کے امور میں انتہائی مددگار ہے ۔ان سب نعمتوں کے جاوجود ملک کا خطے کے دیگر ممالک سے پیچھے رہ جانا ظاہر کرتا ہے کہ منصوبہ بندی کا عمل نقائص سے بھرپور ہے۔وزیر خزانہ ملک غلام محمد نے سوویت یونین کے پنج سالہ منصوبے سے متاثر ہوکر پاکستان کا پہلا پنج سالہ منصوبہ اس وقت کے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو 1948ء میں پیش کیا تھا۔ان کی منظوری کے بعد-55 1950 کا پہلا ترقیاتی پروگرام شروع کیا گیا۔اس کا مقصد صنعتی عمل کو تیزکرنا اور بینکاری اور مالیاتی سروسزکو وسعت دینا تھا۔ ۔سوویت یونین میں سارے ترقیاتی کام مرکزی منصوبہ بندی کے تحت ہوتے تھے،اسی روح اور خلوص کے ساتھ بانیان پاکستان نے منصوبہ بندی کی جو جلد ہی مفادات کے کھیل میں تبدیل ہو گئی۔ ٭پہلا پنج سالہ منصوبہ-60 1955 ئ۔یہ پروگرام منصوبہ بند ترقی کا سیلانی آغاز کہلاتا ہے۔ ٭دوسرا ترقیاتی منصوبہ-1965 1960- ء اسے ’فنکشنل عدم مساوات‘ میں تجربہ کرنا کہتے ہیں۔ ٭تیسرا پنج سالہ منصوبہ 1965-70 ء ، غیر معمولی واقعات کا اسیر۔ ٭چوتھا پنج سالہ منصوبہ1970-75 ء : شروع سے ہی نان اسٹارٹر۔ ٭پانچواں پنج سالہ منصوبہ۔1978-83 ء : درمیانی مدت کی منصوبہ بندی کی طرف واپسی۔ ٭چھٹا پنج سالہ منصوبہ۔ 1983-88 ء : عوام کی ترقی، عوام کی طرف سے، عوام کے لیے۔ ٭ساتواں پنج سالہ منصوبہ: 1988-93 ء :طویل المعیاد وژن کا نقیب۔ ٭آٹھواں پنج سالہ منصوبہ: 1993-98ء کے نام سے تیار کیا گیا۔ 2004میں قومی منصوبہ بندی کمیشن نے پانچ سالہ منصوبہ بندی کو وسط مدتی ترقیاتی فریم ورک کا نام دیا۔ اس مجموعی صورتحال کے تناظر میں وزیراعظم عمران خان نے اپنے خطاب میںملک میں جامع طویل المدتی منصوبوں کا نہ ہونا یا ان پر موثر انداز میں عمل درآمد نہ ہونے کو ایک المیہ قرار دیا ہے۔ وزیراعظم نے اس کی بڑی وجہ ہر پانچ سال بعد ہونے والے انتخابات کو قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس کے تحت اقتدار میں آنے والی ہر حکومت نے ترقیاتی کاموں کو اپنے اپنے دور تک محدود رکھا جس سے طویل المدتی منصوبہ بندی نہ ہوئی۔ یہ کہنا کہ ڈیم اسی حکمت عملی سے بنتے ہیں، وزیراعظم کا اشارہ یقیناً منگلا اور تربیلا ڈیم کی طرف تھا جن کے بعد اب تک ان 50برسوں میں کوئی بڑا ڈیم تعمیر نہیں ہوسکا۔ وزیراعظم نے چین کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ جلد معاشی سپر پاور بننے والے اس ملک کی ترقی کا ماڈل طویل المدتی ہے۔ پاکستان کی معیشت شروع سے ایک ملی جلی معیشت رہی ہے۔ ریاست اور نجی شعبے کا کردار ساتھ ساتھ چلتا رہا ہے۔ پاکستانی معیشت کے اہم شعبے زراعت ، صنعت اور سروسز ہیں۔ہم تجارت کے معاملے میں ہمیشہ خسارے میں رہے یعنی ہماری درآمدات کا حجم زیادہ اور برآمدات کا کم رہا ہے۔ اس کا اثر ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر پر پڑتا ہے۔ ان اقتصادی مسائل کی وجہ سے روپے کی قدرکم ہوتی گئی۔ حالانکہ پاکستان قدرتی وسائل، انسانی سرمایہ اور بہترین جفرافیائی محل وقوع رکھتا ہے۔ ایک غلط فہمی ہے جو بعض سیاسی قوتوں نے پیدا کر رکھی ہے،قرض کو برا کہا جاتا ہے، اصل بات یہ ہے کہ قرض برا نہیں اس کا استعمال برا ہوتا ہے، سابق حکومت نے جس طرح غلط منصوبہ بندی کرتے ہوئے میٹرو بس اور اورنج ٹرین کے منصوبے ترتیب دیئے ان کے اثرات ملکی معیشت پر منفی شکل میں مرتب ہو رہے ہیں، کسانوں کو جدید ٹیکنالوجی دینے کی بجائے کھاد پر سبسڈی کو کافی سمجھا گیا، نوجوانوں کو سرکاری اداروں میں نوکریاں دے کر ووٹ پکے کئے گیئے ،نتیجہ یہ نکلا کہ ریلوے، پی آئی اے، سٹیل ملز اور ایسے دوسرے اداروں کا بھرکس نکل گیا۔قرض کی واپسی کا کوئی انتظام نہ کیا گیا۔ کون ایسا بے خبر ہو گا جسے یہ معلوم نہ ہو کہ پاکستان سی پیک اور گوادر کو تجارتی ترقی کے لئے استعمال کرنا چاہتا ہے، اس فارمولے سے سبھی واقف ہوں گے کہ عالمی مارکیٹ میں قومی مصنوعات کی جگہ بنانے کے لیئے ان کی پیداواری لاگت کم رکھنا ہو گی لیکن یہاں بجلی اور گیس کے نرخ بڑھا کر پاکستان کو برآمدات سے روکا جا رہا ہے ۔ملک میں ڈیم بنتے تو آبپاشی کی سہولیات بہتر ہوتیں، سستی بجلی حاصل ہوتی، زراعت ترقی کرتی، کسان خوشحال ہوتے، صنعتوں کو استحکام ملتا ،تجارت فروغ پاتی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ بھارت سے آنے والے پانی پر انحصار کم ہوتا۔ڈیم اس وجہ سے نہیں بنے کہ ان پر آٹھ دس سال لگ جاتے ہیں لہذا تکمیل کا کریڈٹ نہیں مل پاتا۔ قلیل المدتی منصوبہ بندی نے جمہوری حکومتوں کی کارکردگی میں عدم شفافیت گھول دی ہے ،خود منصوبہ شروع کیا، خود افتتاح کیا، آڈٹ اور اعتراضات کا خود ہی جواب دیا ۔یہ طریقہ درست نہیں۔آگے بڑھنے کے لیئے ضروری ہے کہ منصوبہ بندی کو طویل المدتی بنیاد پر استوار کیا جائے۔