خاں صاحب بہت کچھ بھول جاتے ہیں بلکہ اکثر تو سب کچھ لیکن آموختہ نہیں بھولتے۔ گھوٹکی میں بھی نہیں بھولے۔ للکار کر پڑھا‘ نہیں چھوڑوں گا۔ نواز زرداری کو بالکل نہیں چھوڑوں گا۔ زور نواز کے نام پر تھا‘ مطلب یہ کہ زرداری کو چھوڑنے کا کڑوا گھونٹ تو شاید بھر لوں لیکن نواز ؟ اسے تو کبھی نہیں چھوڑوں گا۔ آموختے میں اس بار ایک نئی بات تھی۔ ترمیمی نوٹ کہہ لیجیے۔ فرمایا لوٹا ہوا پیسہ واپس کر دیں تو چھوڑوں گا۔ یعنی وہ معاملہ کر لوں گا جسے عرف عام میں یا تکنیکی طور پر پلی بارگین کہتے ہیں۔ یہ مرشدی مشرف کی ایجاد تھی۔ دراصل یہ ایک قسم کا غسل ایمانداری تھا۔ صادق و امین ہونے کا بپتسمہ، جن لوگوں کو 30کروڑ لوٹنے ہوتے‘ وہ ایک ارب لوٹتے اور پھر پلی بارگین کے قاعدے کے تحت 70کروڑ واپس کر دیتے۔ یوں وہ تیس کروڑ جائز اور حق حلال کے کہلاتے اور لوٹنے والے صادق و امین قرار پاتے۔ معاملہ زیر نظر میں سوال لوٹی ہوئی رقم کے تعین کا ہے۔ پہلے وہ تعین ہو‘ پھر اس کا 70فیصد واپس کر دیں توزرداری بھی صادق و امین قرار پائیں۔ یہ الگ بات ہے کہ عمران خاں پر جن معاملات کا بوجھ تھا وہ ’’ریگولرائز ‘‘ کرنے کا آرڈر آ گیا۔ یوں وہ ستر تیس کے فارمولے سے مستثنیٰ قرار پائے۔ ٭٭٭٭٭ کتنی رقم لوٹی اس کا تعین قدرے مشکل‘ بہت مشکل بلکہ ازحد مشکل ہے۔ زرداری پر ابھی کیس چل رہے ہیں‘ کچھ پرانے طے شدہ کیس ہیں جنہیں پھر سے کھولا جانا ہے۔ کچھ ابھی زیر تعمیر ہیں لیکن نواز شریف پر کل چار کیس تھے‘ چاروں کا فیصلہ ہو چکا اور کسی بھی فیصلے میں کرپشن کی رقم کا کچھ پتہ نہیں چلتا۔ ایک کیس ازخود تھا۔ نا وصول کردہ تنخواہ کا ذکر انتخابی گوشوارے میں نہیں کیا۔ عدالت نے قرار دیا ‘ جو رقم کا وصول کردہ ہو‘ وہ بھی اثاثہ ہوتی ہے لیکن کیس نیب کے تھے۔ ایک میں بری ہو گئے۔ دوسرے میں سزا ہوئی لیکن فیصلہ پڑھ کر پتہ ہی نہیں چلتا کہ ’’کس جرم پر سزا ہوئی‘‘ اپیل کی سماعت کرنے والی اسلام آباد ہائی کورٹ بھی سمجھنے سے قاصر رہی۔ نیب کے عقیدت مند اسے نیب کی نالائقی قرار دیتے رہے۔ تیسرے کیس میںکہا گیا کہ کرپشن ثابت ہو گئی۔ لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ کہاں اور کتنی رقم کی‘ صرف یہ کہا گیا کہ آمدنی کم‘ اثاثے زیادہ ہیں۔ آمدنی کتنی شاید نہیں بتایا گیا۔ اثاثے کتنے ہیں۔ یہ بھی نہیں بتایا گیا چنانچہ آمدنی اور اثاثوں کا فرق بتانے کا تو سوال ہی نہیں اٹھتا تھا۔ بہرحال سزا ہو گئی۔ یعنی کرپشن کا کوئی ذکرکہیں بھی نہیں ہے۔ اسی لئے نواز شریف بار بار کہتے ہیں کہ ان پر ایک روپے کی کرپشن بھی ثابت نہیں ہو سکی۔ وہ جھوٹ بولتے ہوں گے۔ انہوں نے بے اندازہ کرپشن کی ہو گی کہ خان صاحب کا یہی کہنا ہے لیکن کتنی رقم‘ کب ‘ کہاں ‘ کس مد سے‘ کس منصوبے سے یہ خاں جی کو بھی نہیں پتہ۔ پھر پلی بارگین کیسے ہو گی۔ پلی بارگین تبھی ہوتی ہے جب کرپشن ثابت ہو جائے یا ملزم خود مان لے۔ یہاں جو معاملہ ہے‘اس میں نہ چھوڑنے والی بات تو اپنی جگہ لیکن زیادہ بڑا سچ ہے کہ خاں جی‘ یہ تو لوٹی رقم واپس نہ لینے کی باتیں ہیں۔ حکومت اور نیب گویا یہ کہہ رہی ہے کہ میاں صاحب! خود ہی کچھ دے دو۔ ٭٭٭٭٭ امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کہا ہے کہ حکومت کے پاس معاشی پالیسی ہے نہ اس کی صلاحیت۔ ارے میاں‘ صلاحیت کی تو بات ہی مت پوچھو‘ وہ تو ایسی ہے کہ کب کسی کی رہی ہو گی۔ ستر سال سے کھڑا معیشت کا ڈھانچہ یوں پیوند زمین کرنا کسی بڑے سے بڑے رستم‘ اس سے بھی بڑے سہراب کے بس میں نہیں تھا۔ خاں صاحب نے سات ماہ میں کر دکھایا۔ اس سے زیادہ صلاحیت کا ثبوت آپ کو اور کیا چاہیے ۔ تبدیلی کے میگا بلڈوزر نے کہا ع ’’رڑا میدان‘‘ بنا دیا روک سکو تو روک لو‘ بلڈوزر آیا ہے۔ اور اس کی گواہی تو سٹیٹ بنک نے بھی دے دی۔ یہ ’’نیب‘‘ کی طرح کی سیاسی جماعت نہیں ہے۔ باقاعدہ سرکاری ادارہ ہے‘ رپورٹ میں اس نے لکھا ہے کہ حکومت نے جو ریگولیٹری اقدامات کئے‘ ان سے معاشی سرگرمیاں کم ہو گئیں‘ صنعتی زوال آ گیا۔ ریگولیٹری سرگرمیاں معاشی اصطلاح ہے‘ عوامی زبان میں اسے بلڈوزری سرگرمیاں کہتے ہیں یا پھر تبدیلی کا ایجنڈا۔ ٭٭٭٭٭ اور بلڈوزرز کا سفر ابھی ختم کہاں ہوا۔ ابھی تو شروع ہوا ہے۔ ڈالر مزید مہنگا ہو کر 144کا ہو گیا۔ کہتے ہیں ہدف 180روپے کرنے کا ہے یعنی 36روپے کی منزل طے کرنا ابھی باقی ہے اور کیا پتہ ہدف 200روپے کا ہو۔ یہ کہنا غلط ہے کہ یہ سراسر گھاٹے کا سودا ہے۔ بھئی‘ کہیں نہ کہیں ‘ کسی نہ کسی کو تو فائدہ ہو رہا ہو گا۔ بہرحال‘ ابتدائے عشق ہے روتے ہو کیوں؟ عوام کو چاہیے ‘ باقی ماندہ چیخیں سنبھال رکھیں۔ ضرورت پڑے گی اور پڑتی رہے گی۔ ٭٭٭٭٭ شرح سودپچاس پوائنٹ بڑھ گئی ہے اور پونے گیارہ فیصد ہو گئی ہے۔ تاریخ کی بلند ترین شرح۔ یعنی معاملہ زوال نہیں‘ بلندیوں کی طرف جا رہا ہے۔ کچھ ہفتوں مہینوں بعد یہ پورے گیارہ فیصد ہو جائے گی۔ یعنی رہی سہی سرمایہ کاری‘ صنعتی موجودگی‘ کاروباری مواقع بھی نو دو گیارہ ہو جائیں گے۔ گروتھ ریٹ میں مزید کمی کا مژدہ بھی سنایا گیا ہے۔ گروتھ ریٹ میں کمی کا براہ راست مطلب بے روزگاری میں اضافہ ہے۔ پہلے ہی روزگاری کا طوفان ’’من کلّ حدب ینسلون‘‘ کا منظر پیش کر رہا ہے۔ آئندہ کیا ہو گا۔ معیشت اور سماج‘ دونوں کا خسوف اور کسوف یعنی مطلق سقوط۔؟ خاں صاحب اٹھارہویں ترمیم پر یک دم پھٹ پڑے۔ اس پر بلاول ناراض ہوئے، کہا، خاں صاحب سرخ لکیر عبور نہ کریں۔ خاں صاحب نے سرخ لکیر کہاں عبور کی۔وہ معصوم آدمی ہیں۔ انہیں تو اٹھارہویں ترمیم اور اس کے علیہ ماعلیہ کا پتہ بھی نہیں ہو گا۔ بلاول سمجھنے کی کوشش کریں۔ خاں صاحب نہیں بولے بلکہ ع منصورکے پردے میں خدا بول رہا ہے۔