پاکستان دنیا کے نقشے پر ایک منفرد حقیقت ہے،دوستوں پر آنے والے ہر برے وقت میں بھروسے کے قابل،مضبوط سہارا اور دشمنوں پر طاری رہنے والی مستقل دہشت۔جس کا بھید کھلے نہ وضاحت ہو۔مسلمان ملکوں پر دشمن کی طرف سے مسلط کردہ جنگ کی صورت میںمضبوط حلیف اور آپس کے تنازعات میں منصف ،بااعتماد ،مصالحت کنندہ اور ثالث۔ تحریک پاکستان کے دوران گول میز کانفرنس میں شرکت کے لیے جاتے ہوئے قائد اعظم محمد علی جناح نے مصر میں مختصر بیان کیا،مصر اور فلسطین کے علماء نے ان سے ملاقات کی۔ علماء ہند کی طرح ان کا بھی موقف تھا کہ جناح اور ان کی مسلم لیگ کا تقسیم ہند پر اصرار ہندوستان کی آزادی میں رکاوٹ یا کم از کم تاخیر کا سبب بن رہا ہے، تب قائد اعظم نے فرمایا ، مسلم لیگ مسلمانان ہند کی آزادی اور تحفظ ہی نہیں ، مشرق وسطی کے مسلمانوں کے مستقبل کی حفاظت کے لیے بھی سرگرم ہے ۔ اگر پاکستان نہ ہوا تو ہندو بھارت آپ کے لیے بھیانک خواب بن جائے گا۔ شاید روس اور یورپ سے بھی بڑا خطرہ ۔ پاکستان ہر مسلمان کے لیے پہلا مورچہ ہے، دشمن کے خلاف پہلی براہ راست مضبوط رکاوٹ ۔ بہت دن نہیں گزرے تھے کہ اسرائیل نامی زہریلا خنجر عرب مسلمانوں کے سینوں میں گاڑ دیا گیا، اس دن سے آج تک نہ صرف فلسطین کا مقدمہ لڑا بلکہ جنگوں کے دوران اسرائیل نے اگر کوئی زخم کھایا تو مصر وشام کا لگایا ہوا نہیں بلکہ وہ پاکستان کی طرف سے دیا گیاتھا۔ اب تک پاکستان روس ، اسرائیل اور بھارت کی طرف آنے والے ہر حملے کو اپنے سینے پر لے رہا ہے۔ مسلمان ملکوں کے تنازعات میں وہ ہر فریق کے لیے قابل اعتماد ، ثالث ہوسکتا ہے ، تاریخ کے قدیم ادوار سے ترکوں کا ایرانیوں کے ساتھ تنازع چلا آرہا ہے تو ایرانیوں کی عربوں کے ساتھ اور عربوں کی ایرانیوں کے ساتھ دشمنی آج تک نمایاں ہے ، ایران عرب تنازع، عرب ایران تنازع ، ترکوں کا عربوں کے ساتھ ، ترکوں کا ایرانیوں کے ساتھ گہرے اختلافات ہیں۔ خوش قسمتی سے دنیا کے ہر گوشے میں واقع مسلمان ملک کے خلاف پاکستان کو کوئی تعصب ہے نہ دشمنی ۔ ایران پر دنیا بھر کی پابندیاں لگیں ، پاکستان نے ان کے لیے اپنی سرحد کھلی رکھی،ترکی یونان تنازع میں ترکوں کا غیرمتزلزل ساتھ دیا،روس نے افغانستان پر قبضہ کیا تو پاکستان نے اپنی حفاظت اور افغانستان کی آزادی کے لیے جو کیا اور جس سرعت سے کیا وہ کوئی مسلمان تو دور کی بات،چین،امریکہ اور یورپ مل کر بھی اتنی جلد اور کامیاب مزاحمت نہیں کرسکتے تھے۔ ایرانی انقلا ب کے بعد عرب ایران جنگ کے دوران ہر طرح کے دباؤ اور لالچ کے باوجود پاکستان اس تنازع کا حصہ نہیں بنا، یمن سعودی عرب جنگ میں بھی پاکستان نے خود کو بچائے رکھا۔پاکستان کا فیصلہ بالآخر سب کے لیے سود مند ثابت ہوا،ایران وعرب کی گرم ہوتی سرحدیں،ترکیہ اور عربوں کی سردمہری ختم کرنے میں پاکستان قابل قدر خدمات ا نجام دے رہا ہے۔ حال ہی میں افغانستان سے امریکہ کی پسپائی پر تبصرے پینٹاگون، سی آئی اے کے ڈائریکٹر اور سیاستدانوں نے کیے وہ تبصرے اور بھارت کا واویلا طالبان کی فتح تو ہے ہی، مگر پاکستان کے سینے کا تمغہ اور سفارت کاری کی معراج بھی ہے۔ اب جبکہ امریکہ بہت سی ناکامیوں اور مستقبل کی ضرورتوں کے پیش نظر مشرق وسطی سے دستبردار ہورہا ہے ، اور امریکہ سے دوری کے بعد دولت مند عرب ملکوں میں عدمِ تحفظ پیدا ہونا شروع ہوا تو پاکستان ہی ہے جس نے ابتدائی طور پر تسلی دی اور چین کی شکل میں متبادل کا انتظام کردیا۔پاکستان اور اس کی قیادت میں بہت کمزوریاں رہی ہوں گی۔ ہماری ریاست کے ادارے گاہے راہ بھٹکے ہوں گے، اس کے باوجود پاکستان نے اپنے ہم عصر اور ہم چشموں کے مقابلے میں کہیں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا،چھوٹا ملک ہونے کے باوجود اپنے سے سات گنا حجم میں بڑے،اسلحہ، ٹیکنالوجی اور افواج کی تعداد میں اور بھی زیادہ تفاوت کے باوجود دشمن کا ڈٹ کر کامیابی سے مقابلہ کیا ہے،بھارت ہی ہمارے لیے ’’بس ‘‘تھا، اوپر سے روس کی غیر مشروط اور امریکہ کی درپردہ حمایت کے باوجود آج وہ دن آگیا کہ بھارت حملہ آور ہونے کی طاقت اور ہمت کھو چکا ہے۔ جنگ خندق کے بعد جب کفار پسپا ہورہے تھے ، ہمارے پیغمبر پاک ﷺ نے فرمایا تھا کہ یہ کفار کا ہم پر آخری حملہ ہے، آج کے بعد وہ کبھی ہم پر حملہ آور نہیں ہوں گے۔ آئندہ ہم انہیں زیر کرنے کے لیے ان کے پاس جائیں گے۔ 1987ء میں جب بھارت نے ’’براس ٹیکس ‘‘جنگی مشقوں کے بہانے پاکستان پر راجھستان کے راستے چڑھائی کرنے اور پاکستان کو دو حصوں میں کاٹ دینے کے لیے ہمارے سرحدوں پر فوج جمع کی تب راقم السطور نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں بحث کرتے ہوئے حضور نبی اکرم ﷺ کے مذکورہ بالا فرمان کا حوالہ دیتے ہوئے عرض کیا تھاکہ بھارت کی یہ کوشش ایک طرح سے ہمارے لیے جنگ خندق کے مترادف ہے ، دانتوں تلے ہونٹ دبا کر ثابت قدم رہیے ،یہ دشمن کا آخری وار ہے،آج کے بعد وہ کبھی پاکستان کی سرحدوں میں داخل نہیں ہوسکے گا، آئندہ ہر جنگ بھارت کے اندر لڑی جائے گی۔ زیادہ دن نہیں گزرے کہ پاکستان کے سائنس دانوں نے بے بدل میزائل اور میدان جنگ کے ایٹمی ہتھیار بنا کر اس خواب کو تعبیر بخش دی۔ روس نے افغانستان پر چڑھائی کی تو بھارت پہلے دن سے اس کے ساتھ تھا مگر پاکستان کسی کا انتظار کیے بغیر چوبیس گھنٹے کے اندر ’’جی ایچ کیو ‘‘میں اعلیٰ افسروں کے اجلاس میں روس کے خلاف مزاحمت کا فیصلہ کیا اور دس برس سے کم عرصے میں اس کا نتیجہ پورے دنیا کے سامنے ہے۔ اس کے بعد امریکہ زیادہ دن صبر نہیں کرسکا جن عزائم کے ساتھ روس آیا انہی عزائم کے ساتھ مگر زیادہ تیاری، لاؤ لشکر اور پوری دنیا کے جنگی سازوسامان کے ساتھ حملہ آور ہوا تو پاکستان میں یہ تاب اور توانائی نہیں تھی کہ پہلے دن سے پوری دنیا کے سامنے کھڑا ہوجاتا جس طرح وہ روس کے سامنے آیا تھا، روس چین جیسے طاقتور امریکہ کے حریف بھی دم سادھے پڑے رہے۔ پاکستان نے بظاہر ان کی دھمکی کو قبول کی اور اپنی سرحدیں ان کی گزرگاہ کے لیے کھول دیں لیکن نظر بچا کے ایک کھڑکی ، افغانستان کے دلاورمجاہدین آزادی کے لیے بھی کھلی رکھی کہ وہ اپنے بال بچوں کو پاکستان میں محفوظ بنا کر دشمن کے ساتھ دو ہاتھ کرسکیں۔ یہاں بھی بھارت اسی طرح امریکہ کا ہراول ہے جیسا کہ تین دہائی پہلے روس کا۔ ماہرِ حرب وضرب اور آئندہ واقعات کی سُن گن اور اعلیٰ تجزیے کی صلاحیت والے جنرل حمید گل نے دس برس پہلے کہا تھا کہ جب تاریخ لکھی جائے گی تو اس میں درج ہوگا کہ پاکستان نے امریکہ کی مدد سے افغانستان میں روس کو شکست دی اور اس کے ساتھ ہی اگلا جملہ یوں ہوگا کہ پھر پاکستان نے افغانستان میں امریکہ کی مدد سے امریکہ کو شکست سے دوچار کیا۔ بہت لوگ اس بات کو مبالغہ سمجھے تھے لیکن امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے ڈائریکٹر اور بعض سینئر سفارتکار اور متعدد ممبرانِ کانگریس کے منہ سے یہ جملہ سن کر حمید گل کی بات کو سچ ماننا پڑا،جس میں امریکہ کی خفیہ ایجنسی کے ڈائریکٹر ٹی وی انٹرویو میں میزبان کے اس سوال پر کہ ’’ایک جملے میں بتائیے کہ افغانستان میں امریکہ کو شکست کیوں ہوئی؟‘‘جواباً اس نے کہا ’’فقرے میں نہیں،صرف ایک لفظ ‘‘ یہ کہ ’’پاکستان ‘‘ ۔ یہ سن کر میری طرح ٹی وی میزبان کا منہ بھی کھلے کا کھلا رہ گیا۔