دھرنا کیوں ہو رہا ہے ؟ جمعیت علماء اسلام(ف) کے اندر سے بھی اس بارے میںمختلف توجیحات آ ر ہی ہیں۔کسی کا خیال ہے کہ یہ حکومت کی بری گورننس کی وجہ سے ہو رہا ہے، کوئی کہتا ہے کہ یہ حکومت اسلام کے لئے خطرہ ہے، کوئی تحفظ ناموس رسالتؐ کی پرچیاں چھاپ کر چندہ جمع کر رہا ہے۔ کسی کا خیال ہے کہ انتخابات میں دھاندلی سے موجودہ حکومت کو لایا گیا ہے اور اس سیلیکٹڈ حکومت کو گھر بھیج کر رہینگے۔ مولانا فضل الرحمٰن نے بھی کچھ ایسا ہی بیان ایک انٹر ویو میں دیا اور اینکر کے اصرار پر کہ اگر پھر انتخابات ہوئے اور یہی وزیر اعظم جیت کر آ گئے تو پھر کیا ہو گا، مولانا فضل الرحمٰن نے زچ ہو کر کہا کہ ہم پھر دھرنا دیں گے۔ اس بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ایک ایسا ابہام دھرنے کے حوالے سے اس جماعت کے اندر بھی موجود ہے جو ہر حال میں دھرنا دینے پر مصر ہے۔ وہ جماعتیں جو مولانا فضل الرحمٰن کا ساتھ تو ضرور دینا چاہتی ہیں لیکن فیصلہ نہیں کر پا رہیں ، انکا کنفیوژن کا شکار ہونا بیجا نہیں ہے۔مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی نے جو بھی مشورہ مولانا کو دیا انہوں نے نہیں مانا۔ پیپلز پارٹی کے اصرار کے باوجود مولانا نے اس بات کی وضاحت بھی ضروری نہیں سمجھی کہ دھرنے کے لئے وہ مذہب کا کارڈ استعمال نہیں کرینگے۔مذہب کے کارڈ کے استعمال کے حوالے سے پیپلز پارٹی کے علاوہ کسی قومی جماعت کا کردار ایسا نہیں ہے کہ وہ مولانا پر مذہب کا کارڈ استعمال کرنے کے حوالے سے اعتراض اٹھا ئے۔ اگر کسی جماعت نے مذہب کارڈ استعمال نہیں کیا تو ایسے لوگوں کی حمایت ضرور کی ہے جو اس کارڈ کے ذریعے حکومتوں کو زچ کرتے رہے۔ دنیا بھر کی اسٹیبلشمنٹ خصوصاً امریکہ بہادر کا یہ ایک پسندیدہ کارڈ رہا ہے اور انہوں نے بہت سی جگہوں پر حکومتوں کو الٹنے کے لئے اس کارڈ کا سہارا لیا ہے۔دو سال قبل بدنام زمانہ پریسلر ترمیم کے بانی لیری پریسلر نے نیوکلر انرجی کے پرامن استعمال اور پریسلر ترمیم کے حوالے سے اپنے اوپر ہونے والی تنقید کی وضاحت میں ایک کتاب بعنوان Neighbours in Arms) ( لکھی جس میں انہوں نے امریکہ اور بھارت کے درمیان ہونے والے ایٹمی توانائی کے پر امن استعمال کیلئے ہونے والے معاہدے کے فروغ کے لئے امریکی انتظامیہ کو قائل کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا ہے جبکہ بھارت کے باسیوں کے لئے انہوں نے یہ پیغام دیا ہے کہ وہ دنیا کے چار سے زیادہ مذاہب کے لوگوں کا ملک ہے اور انہیں ایٹم بم کے پر امن استعمال کے حوالے سے مذہب کارڈ کے ذریعے امریکہ پر دبائو ڈالنا چاہئیے تا کہ اس معاہدے پر عمل ممکن بنایا جا سکے۔اسکے ساتھ ہی انہوں نے جنوبی افریقہ میں بشپ ٹوٹو کی مثال دی جنہوں نے مذہب کے ذریعے نیلسن مینڈیلا کی نسل پرستی کے خلاف تحریک میں بہت اہم کردار ادا کیا۔اس قسم کی اور بھی مثالیں انہوں نے تاریخ سے دی ہیں جہاں مذہبی پیشوائوں نے انسانی حقوق اور ظالم حکومتوں کے خاتمے کے لئے فیصلہ کن کردار ادا کیا۔ پھرفلپائن کے صدر مارکوس کے خلاف بھی رومن کیتھولک چرچوں کی تنظیم اور مسلمانوں نے بھی مذہب کے حوالے سے تحریک کو ایندھن فراہم کیا کیونکہ یہ اسکے ظلم کا شکار رہے تھے۔یہ مثالیں بہر حال موجود ہیں لیکن یہاں پر مذہب کا کارڈ استعمال کرنے کے لئے ان مذہبی اکا ئیوں کی مدد لی گئی جو کسی نہ کسی طرح حکمرانوں کے ظلم کا نشانہ تھے اور سب سے بڑھ کر اس میں اہم بین ا لاقوامی طاقتوں کی پشت پناہی بھی شامل رہی۔ اس تناظر میں اگر مولانا فضل الرحمٰن کی طرف سے مذہب کارڈ کے استعمال کی بات کریں تو بنیادی عنصر ہی مفقود ہے۔پاکستان میں مذہبی حوالے سے اکثریتی مسلک کیا اقلیتی مسالک بھی کسی ظلم یا دبائو کا شکار نہیں ہیں۔ اقلیتوں کی بات کریں تو شاید ملکی تاریخ میں پہلی بار اتنی بھرپور طریقے سے انکا تحفظ کرنے کی کاوش کوئی حکومت کر رہی ہے۔اس حوالے سے مولانا صرف اپنے پیروکاروں کو شاید متحرک کر پائیں کوئی دوسری مذہبی جماعت یا تنظیم اس میں مدد گار نہیں ہو گی۔دوسرا عنصر ہمارے جیسے ملکوں میں تحریک کے ذریعے حکومتی تبدیلی میں کوئی اہم بین الاقوامی قوت کی حکومت سے ناراضگی یا اسکی تبدیلی کی خواہش ہوتی ہے۔ یہ کام ہم نے ایوب خان کے ہٹائے جانے سے لیکر، ذوالفقار علی بھٹو اور پھر جنرل مشرف کی رخصتی تک ہوتے دیکھا ہے۔اس حوالے سے بھی مولانا فضل الرحمٰن کے لئے کوئی حوصلہ افزا خبر نہیںہے۔تیسرا اور سب سے اہم عنصر جسکے ایک حصے کی حمایت کا مولانا غلط طور پر تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں وہ ہے اسٹیبلشمنٹ، جو مولانا کو میری اطلاع کے مطابق واضح پیغام پہنچا چکی ہے کہ اس وقت پاکستان اس قسم کی حرکتوں کا متحمل نہیں ہو سکتا۔پھر کیا وجہ ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن دھرنا دینے پر تلے ہوئے ہیںتو اسکا جواب اس کالم کے عنوان میں ہے۔ مولانا منبع راز ہیں اور انکے سوا کسی کو بشمول میاں نواز شریف کچھ پتہ نہیں کہ وہ یہ دھرنا کیوں دینا چاہ رہے ہیں، حتیٰ کہ مولانا کی اپنی جماعت بھی اسکے اصل اغراض و مقاصد سے بے خبر ہے۔میاں نواز شریف اپنی جماعت میں شدید اختلافات کے باوجود اس دھرنے میں کودنے کا اعلان کر چکے ہیں اور اسکی توجیہہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا ہے کہ ہم نے مولانا کی اسمبلی سے استعفوں کی بات نہ مان کر غلطی کی لہٰذا اب ہم مولانا کا ساتھ نہ دے کر یہ غلطی نہیں کرنا چاہتے۔ انہوں نے اکبر الٰہ آبادی کا ایک مصرعہ بھی پڑھا: سنا ہے اہل غیرت سے یہی جینا ذلت سے ہو تو مرنا اچھا سلطان ٹیپو جیسے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے میاں نواز شریف یہ بھول گئے اس سے پہلے بھی دومصرعے ہیں ۔ غفلت کی ہنسی سے آہ بھرنا اچھا افعال مضر سے کچھ نہ کرنا اچھا اگر انہوں نے ان پر عمل کیا ہوتا تو آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتا کہ پاکستان کی ایک بہت بڑی سیاسی جماعت کو 2018 کے الیکشن میں تین فیصد ووٹ لینے والوں کے پیچھے نیت باندھنی پڑرہی ہے جنکی نیت کے بارے میں انہیں ابھی تک یقین نہیں ہے کہ درست ہے بھی کہ نہیں۔