میرے معزز قارئین! مجھے حج کے بعد قسط وار سفرنامہ لکھنا تھا مگر حاجیوں نے مجبور کر دیا کہ میں منیٰ کے پانچ روزہ قیام کے حوالے سے پوری دیانتداری کے ساتھ لکھوں کہ قلم میرے پاس امانت ہے۔ شاید آپ منیٰ کے حوالے سے ایک وائرل ویڈیو دیکھ چکے ہوں جس میں پاکستانی حاجی زبردست احتجاج کر رہے ہیں اور عمران خاں کا نام لے کر اپنے دل کی بھڑاس نکال رہے ہیں۔ جناب اس احتجاج میں نہ تو کوئی سیاست ہے اور نہ کوئی سازش، میںبنفس نفیس ان معاملات کا عینی شاہد ہوں میں تو منیٰ میں کئے گئے انتظامات پر انگشت بدنداں رہ گیا اور اس کے بعد باسی اور ناقص کھانے اور پھر ان کے عملے کا سلوک الاماں والحفیظ۔میں یہ بھی بتاتا چلوں کہ ہو سکتا ہے اس میں وزارت حج کا یکسر قصور نہ ہو مگر حاجیوں کے ساتھ اس ذلت آمیز سلوک کا کوئی تو ذمہ دار ہے، جو بھی ہے، صرف نئے پاکستان کی تبدیلی پر آیا ہے۔ بدتمیزی کے سارے ریکارڈ ٹوٹ گئے۔ میرا تعلق مکتب 89سے تھا ہم لوگ عزیزیہ میں 607بلڈنگ میں ٹھہرے ہوئے تھے ہماری رہائش بہت اعلیٰ تھی ہر کمرے میں چار یا پانچ بیڈ تھے جس پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں تھا کہ جگہ کی مجبوری۔ بات میں کروں گا منیٰ کے قیام کیلئے ہمیں بسیں عزیزیہ سے منیٰ کے خیموں میں لائیں۔ پتہ چلا کہ ہمارے خیمے منیٰ ون میں لگائے گئے تھے جگہ کی نادستیابی کے باعث منیٰ کی یہ ایکسٹینشن تھی اور یہ علاقہ مزدلفہ سے جا ملا۔ اس کو منیٰ ہی قرار دے دیا گیا تھا جب ہم بسوں سے اترے او رخیموں میں آئے تو بس پھر ہمارا امتحان شروع ہو چکا تھا۔ میں اپنے خیمے میں آتا تو آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں کہ ساتھ ساتھ اوپر نیچے 64بستر جہاں جس نے قبضہ کر لیا۔ مگر یہ منظر عجیب تھا اوپر کے بیڈ والے بیڈز کے ساتھ لٹکتی سیڑھیوں سے اوپر چڑھتے۔ سچ تو یہ ہے کہ اتنی جگہ کم تھی کہ دم گھٹتا تھا۔ مگر خود کو مشکل کے لئے ذہنی طور پر تیار کیا کہ حج اسی مشقت کا نام ہے مگر جب اپنے بشری تقاضے پورے کرنے کے لئے سینکڑوں لوگ واش رومز کی طرف گئے تو آٹھ سے دس سیٹ والے اور دو یا تین کموڈ والے تھے۔ لمبی لائنیں لگ گئیں۔ عقل تسلیم نہیں کر رہی تھی کہ اتنے سارے حاجیوں کے لئے اتنا ناقص انتظام ہے۔ وضو کے لئے صرف چھ ٹوٹیاں آپ شاید مذاق سمجھ رہے ہوں۔ وزارت حج کسی بھی 89مکتب کے نمائندے سے کنفرم کر سکتی ہے۔ میں بہت ذمہ داری سے حقائق بیان کر رہا ہوں۔ نماز کے لئے کوئی خاص جگہ نہ تھی۔ ہم دھوپ میں بھی جیسے تیسے جماعت کرواتے رہے۔ اس کے بعد چلتے ہیں کھانے کی طرف۔ ہمیں وہاں سے کھانے کے ٹوکن دیے گئے تھے جس میں پانچویں روز کی رات کا کھانا نہیں تھا اس بات کو ذہن میں رکھیے گا آخر میں میری بات سمجھ میں آئے گی۔ کھانے کا سلسلہ شروع ہوا بتاتے ہوئے شرم آتی ہے۔ ایکسپائرڈ اور باسی کھانا ہی ملا دیا گیا میں اپنے باکس میں کھانا کھولاتو اس میں سے بدبو آرہی تھی۔ کچھ نے میری تصدیق کی۔ کھانے کا اتنا کمتر معیار کہ لوگوں نے کھانا کھانا ہی چھوڑ دیا مثلاً میرے ساتھی سعید میاں اور فیاض صاحب تھے انہوں نے چائے کے سوا کچھ نہیں کھایا اور بھوک کے ساتھ وقت گزارا اور میں ہی کیا کئی لوگ رش کے باعث واش روم کا رخ نہیں کرتے تھے۔ مالٹے ملے تو وہ بھی کھٹے جوس اتنا ناقص کہ گلے پکڑے گئے۔ میں نے ان کے ایک نمائندے عمر سے جو کہ ٹوبہ کا رہنے والا تھا پوچھا کہ وہ لوگ حاجیوں کے ساتھ یہ ناروا سلوک کیوں کر رہے ہیں میں نے اسے تعارف بھی کروایا اور اسے بتایا کہ ہمارے 92نیوز میں خبریں شائع ہو رہی ہیں وہ کہنے لگا جی یہ پاکستانیوں کو کچھ نہیں سمجھتے۔ پاکستانی حکومت جو ان کو ادا کر رہی ہے اسی طرح انہیں مل رہا ہے۔ کسی اور ملک کے لوگ کیوں احتجاج نہیں کر رہے۔ ایک اور نمائندہ خالد تھا۔ یہ سب لوگ اس وقت حاجیوں کے ساتھ انتہائی بدتمیزی کرنے لگے جب انہوں نے واپسی کے لئے بسوں کا پوچھا اور مایوسی پر احتجاج کرنے لگے مجھے 92نیوز کا سن کر خوشی بھی ہوئی کہ لوگ اس میں چھپنے کا کہہ رہے تھے اور وہ انہیں کہتے تھے جو کرنا ہے کرلو ۔جو 92نیوز نے کرنا ہے وہ بھی کر لے۔ بدتمیزی سے کہتے جاتے اور اونچا بولو اور اونچا بولا حاجی بے چارے کیا کرتے وہاں سے یعنی منیٰ ون سے پیدل ہی عزیزیہ کے لئے روانہ ہو گئے۔ جب انتظامیہ نے کہا کہ رات ٹھہریں گے تو اگلے روز شیطان کو کنکریاں بھی مار لینا کہ سنت ہے۔ انہوں نے خود پانچویں دن کا کھانا ہی نہیں رکھا تھا یعنی پروگرام یہ پانچ دن کا تھا۔ عرفات اور مزدلفہ کا بیان تو میں بعد میں کروں گا نارمل پانی تک دستیاب نہیں تھا کولروں میں آئس واٹر تھا۔ یخ ٹھنڈا حاجیوں کے گلے پکڑے گئے۔ یہ بھی ذہن میں رہے کہ یہاں بھی دس بارہ باتھ روم اور 6وضو کے لئے ٹوٹیاں تھیں۔پاکستان سے آئے ہوئے گائیڈ مجسم نالائق تھے کسی کو کچھ معلومات نہیں تھیں۔ نقشے پکڑ کر کھڑے تھے مگر بتانے سے معذور ہی نہیں بلکہ غلط بتاتے تھے۔ میرا پختہ گمان ہے کہ یہ سب سفارشی تھے اکثر گمراہ کرنے والے معاونین کا کام صرف یہ تھا کہ بس پر سوار ہو جائیں بس سے اتر جائیں۔ یہ سب لوگ ہمارے حاجیوں کے کھاتے سے تنخواہیں بھی لیتے رہے۔ وہاں احتجاج کرنے والے سردار محمد یوسف کو خراج تحسین پیش کر رہے تھے کہ پچھلے سال انہوں نے حاجیوں کو بہت اچھے انداز میں سہولتیں دیں اور ان کے دور میں ایک بھی سفارشی نہیں تھا۔ یہ بات مجھے عالم دین قاری محمد امجد نے بتائی جو کہ خود بھی مانسہرہ کے رہائشی ہیں۔ وہ بتانے لگے کہ وفاقی وزیر صاحب نے ڈاکٹرز کے کوٹہ میں بھی اکثریت پٹھانوں کی رکھی ہے جو اچھی طرح بات ہی نہیں سنتے اور نہ سمجھتے ہیں۔ پنجابیوں کو ترجیحات میں پیچھے رکھا گیا۔ یہ جناب نور القادری ہی تھے جو کہتے تھے کہ حج مفت نہیں ہوتا۔ وہ سچ کہتے تھے کہ وہاں کھانا بھی اپنا ہی کھانا پڑتا تھا۔ جو بھی ہے خاص طور پر منیٰ میں حاجیوں کے ساتھ بدسلوکی نے خان کی حکومت کا پول کھول دیا۔ کسی نے معلم کو نہیں دیکھا کوئی گائیڈ کرنے والا نہیں تھا۔ اتفاق سے میرے ساتھ میاں اسلم اقبال کے چچا بھی تھے۔میاں اسلم اقبال میرا باقاعدہ شاگرد بھی ہے۔میں نے اس کے چچا سے کہا کہ وہ پی ٹی آئی کی کارکردگی دیکھ لیں وہ کہنے لگا میں خود احتجاج کرتا ہوں۔لوگ پانچ پانچ لاکھ خرچ کر کے آئے کہ چلو شاید ان کو سہولت ملے گی مگر رہائش اور بزنس پورٹ کے علاوہ باقی خواری ہوئی۔ عزیزیہ میں تو چلو پھر بھی گزارہ تھا مگر منی میں کھانے کے نام پر مذاق تھا اور رہائش میں وضو اور غسل خانے انتہائی ناکافی۔ لوگ ن لیگ حکومت کے حج کو یاد کرتے رہے۔ ابھی مجھے بہت کچھ لکھنا ہے مگر منیٰ کے حوالے سے لکھنا ضروری تھا کہ وزارت حج جلد از جلد اس کا نوٹس لے۔ انشاء اللہ ڈائریکٹر ریحان کھوکھر صاحب سے بھی لاہور آ کر بات ہو گی۔ چونکہ میرا اپنا مشاہدہ اور تجربہ ہے میں انہیں کئی تجاویز دوں گا۔