کورونا سے ہلاکتوں کی تعداد ملٹی پل ہو کر بڑھ رہی ہے‘ مرض کا دائرہ بھی خود کو پھیلائے چلا جا رہا ہے لیکن وزیر اعظم فرماتے ہیں کہ معاملہ بہت کم ہے۔ اللہ اس قوم پر رحمت کرے تو کرے‘ اور کچھ تعجب بھی نہیں ہے‘ اس لئے کہ ہمارا ملک واحد ملک ہے جہاں کورونا آیا نہیں لایا گیا۔ بے شک تاریخ انکی خدمات اس ضمن میں سنہرے حروف ہی سے لکھے گی۔ چند روز پہلے وزیر اعظم نے پہلے لاک ڈائون کی مخالفت کی۔ یہاں بھی گویا ہمارے ملک کی دنیا بھر میں انفرادیت برقرار رکھی۔ وزیر اعظم شروع ہی سے لاک ڈائون کے مخالف تھے۔ اگرچہ بیچ میں ایک دو بار اس کا کریڈٹ بھی لیا۔ ایک بار فرمایا کہ مرض اس لئے نہیں پھیلا کہ ہم نے لاک ڈائون کر دیا تھا لیکن اب کی بار پھر پھٹ پڑے اور ایک انوکھا انکشاف بھی فرمایا کہ لاک ڈائون اشرافیہ نے کیا ۔یہ سوال پھر کبھی سہی کہ جب اشرافیہ لاک ڈائون نافذ کر رہی تھی تو حکومت کہاں تھی؟قرنطینے میں؟لیکن فی الوقت یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے کہ اشرافیہ سے مراد کیا ہے۔ شاید خان صاحب نے کوڈ ورڈ استعمال کیا ہے اور نہ جانے کس نامعلوم کو یہ خطاب دیا ہے ورنہ یہ بات بتائے جانے کی محتاج نہیں کہ ملک میں ایک ہی اشرافیہ ہے ۔جس کی حکومت ہے‘ جسکی کابینہ ہے اور اس کے شبھ چنتک ہیں۔ ذرا کابینہ ہی پر نظر ڈال لیجیے ع کیا کیا مچی ہیں دیکھو اشراف کی بہاریں ملکی تاریخ میں آپ نے ساری اشرافیہ کو بنیان مرصوص کی طرح اکٹھا اور یک جان کر دیا ہے۔ نصیب دشمناں‘ آپ کے ہوتے ہوئے کوئی اور اشرافیہ سر اٹھائے؟توبہ نعوذ باللہ ٭٭٭٭٭ ادھر اٹھارہویں ترمیم کے خاتمے کا غل اٹھا ہے۔قانون دان اسماعیل آزاد نے فرمایا ‘ حیرت ہے‘ حکومت کے پاس تو اکثریت ہی نہیں۔ پھر کیسے اس ترمیم کو ختم کرنے کے لئے ترمیمی قانون لائے گی؟ حیرت اس قابل ہے کہ مسترد کر دی جائے۔ آزاد صاحب کو ’’خفیہ زمینی حقائق‘ کا پتہ نہیں۔ کیا سیٹھ سنجرانی کو برقرار رکھنے کے لئے حکومت کے پاس اکثریت تو کیا‘ مطلوبہ گنتی کے آدھے ارکان بھی نہیں تھے‘ پھر کیسے صاف بچ گئے۔ دیگر خفیہ زمینی حقائق میں ایک تو خود شہباز شریف ہیں جو نہ جانے کب سے ’’من آمادہ ایم‘‘ کی ترنم خیز صدا بنے بیٹھے ہیں۔ لگتا ہے‘ ان کی صلائے مسلسل کے سہنے جانے کا وقت آ گیا۔ رہی باقی مسلم لیگ کے مخالف ارکان تو ان کے لئے نیب موجود ہے اور اڑتی سی خبر ہے کہ اس نے تیاری بھی پکڑ لی ہے۔ اب تو گرفتاری کے لئے ’’عذر لنگ‘‘ کی بھی ضرورت نہیں۔ ایسے ہی ایک مفروضہ کو ملاحظہ کیجیے جس کے ’’محقوقہ‘‘ بن جانے میں کوئی رکاوٹ بھی نہیں۔مفروضہ یہ ہے کہ مثال کے طور پر نیب شاہد خاقان عباسی کو منگلا ڈیم میں کرپشن کے الزام میں گرفتار کر لیتا ہے۔ اس موقع پر سوال جواب کا مختصر سیشن کچھ یوں ہو سکتا ہے: خاقان عباسی:مجھے کیوں پکڑا‘ میرا اس معاملے سے کیا لینا دینا؟ چیئرمین صاحب:ہر ملزم یہی کہتا ہے کہ میرا کیا لینا دینا شاہد خاقان:لیکن جناب میں تو اس وقت شاید پیدا بھی نہیں ہوا تھا۔ چیئرمین صاحب:یہ بات عدالت میں ثابت کرنا۔ اگلے برس پہلی پیشی ہے۔ شاہد خاقان:لیکن جناب‘منصوبہ ایک کھرب کا بھی نہیں تھا‘ اس میں دو ہزار کھرب کی کرپشن کیسے ہو گئی۔ چیئرمین صاحب۔ہمارے حساب میں اسی طرح ہوتا ہے۔ ٭٭٭٭٭ اٹھارہویں ترمیم جب ہوئی تھی تو خاں صاحب نے اس کی حمایت کی تھی اور ایک پریس کانفرنس میں ’’ڈیولیوشن آف پاور‘‘ کے فضائل بیان کئے تھے۔ پھر اب کیا ہوا کہ یک دم اس کے خاتمے کے لئے کمر کس لی۔ بات یہ ہے کہ فضائل تو وہ قرضے نہ لینے کے بھی بیان کیا کرتے تھے اور بے حساب مذمتیں کرپشن کی بھی کرتے تھے۔ پی ٹی آئی کا عملی اصول ایک ہی ہے۔ غریبوں سے دولت چھینو‘ اشرافیہ کو نوازو چنانچہ اس فارمولے میں اٹھارہویں ترمیم کہیں فٹ بیٹھ ہی نہیں سکتی۔ اٹھارہویں ترمیم کی جو شق سب سے زیادہ ناقابل برداشت ہے‘ وہ یہ ہے کہ صوبے اپنے حصے کے وسائل کو خود تعلیم اور صحت پر خرچ کریں۔ پنجاب میں مسلم لیگ ن نے اسی ترمیم کی بدولت ہر ضلع میں نیا ہسپتال بنایا ار بہت سے کالج بھی‘ نیز سڑکیں بھی تعمیر ہوئیں۔ پی ٹی آئی ان تینوں ’’کارہائے فضول‘‘ کی مخالف ہے اور عملی ثبوت پختونخواہ ہے جہاں سات برس میں ایک بھی ہسپتال یا لیبارٹری نہیں بنی۔ اب دو سال سے پنجاب میں بھی صحت کے شعبے کا کریا کرم ہو چکا ہے۔ اٹھارہویں ترمیم کے خاتمے سے یہ کریا کرم مستقل ہو جائے گا۔ اسمعیل آزاد نے کہا کہ ترمیم ختم ہوئی تو وفاق صوبہ کشمکش ہو گی جس سے ملک کمزور ہو گا۔ عرض ہے کہ میاں‘ اصول زیادہ قیمتی ہیں۔ ہم نے اصول بچا لیا‘ بنگال قربان کر دیا جو اتنا بڑا صوبہ تھا۔ ان چھوٹے موٹے صوبوں کی تو حیثیت ہی کیا۔(برسبیل تذکرہ‘ یہ ترمیم ختم ہوتی نظر نہیں آ رہی) ٭٭٭٭٭ ایک وزیر نے فرمایا ‘ آئی پی پی اور آٹے چینی کے سکینڈل فائلوں(یعنی سرد خانے) کی نذر نہیں ہونے دیں گے۔ شاید وہ آئندہ کے متوقع سکینڈلوں کا ذکر کر رہے ہیں(عوام تیار رہیں‘ نئی واردات کسی بھی وقت ہو سکتی ہے)اس لئے کہ موجودہ سکینڈل تو مردہ خانے کے ڈیپ فریزر میں جمع ہو کر منجمد بھی ہو چکے۔ آئی پی پیز سکینڈل کے وکٹری سٹینڈ پر کھڑے تینوں چوٹی کے ’’ایمانداروں‘‘ کے بارے میں وزیر اعظم خود کابینہ کو حکم دے چکے کہ ان کا دفاع کرنا ہے۔ باقیوں کا شاید اس لئے نہیں کہ انہوں نے لوٹ مار میں زیادہ لمبے ہاتھ نہیں مارے۔آٹے چینی کے ڈیڑھ کھرب والے ڈاکے پر تو پہلے ہی ’’مٹی پائو‘‘فارمولا لاگو ہو چکا۔ فروری میں ملزم بے نقاب کرنے اور سزا دینے کا اعلان شاید کرونا کا شکار ہو گیا۔