مکرمی!گزشتہ سال سردیوں میں 10 روپے میں ملنے والا انڈہ اب بیس روپے میں مل رہا ہے۔ مرغی کا گوشت جو شاذو نادر ہی دو سو روپے کلو سے اوپر جاتا تھا اب 340 روپے کلو تک بک رہا ہے، کسی کو کچھ سمجھ نہیں آ رہی کہ آخر یہ مہنگائی کا عذاب نازل کیسے ہوا؟ ہر ضروری شے عوام کی پہنچ سے دور کیوں ہوتی جا رہی ہے ۔ سب سے خطرناک بات یہ ہوئی کہ ملک میں معاشی بے یقینی پیدا ہوئی، کاروباری طبقہ اس بے یقینی کی وجہ سے ناجائز منافع خوری پر لگ گیا۔زمینی حقائق یہ ہیں کہ مہنگائی میں کمی کا رجحان تو دور کی بات ہے وہ ایک جگہ ٹھہر بھی نہیں رہی اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے۔مہنگائی اتنی تیزی سے بڑھی، لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے کہ جن پر قومی خزانہ لوٹنے کے الزامات ہیں ان کے دور میں تو ہر چیز سستی تھی بجلی، گیس، اشیائے خورو نوش حتیٰ کہ ڈالر بھی آدھی قیمت پر ملتا تھا۔ا گر وہ لٹیرے تھے تو یہ معجزہ کیسے دکھا رہے تھے۔ حکومت کے ترجمانوں کی فوج ظفر موج ہر صبح اٹھ کر اپوزیشن والوں کو چور، لٹیرے، دغا باز، جعلساز حتیٰ کہ ملک دشمنوں کے آلہ کار ثابت کرنے پر اپنا پورا زور صرف کر دیتی ہے- ان باتوں سے اب ان کروڑوں پاکستانیوں کو کیونکر مطمئن کیا جا سکتا ہے جو غربت کی لکیر سے نیچے چلے گئے ہیں اور جن کے لئے جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنا ایک ڈراؤنا خواب بن گیا ہے-حکومت نے اپنی ناقص اقتصادی پالیسیوں کی وجہ سے حالات ایسے پیدا کر دیئے کہ اپوزیشن کی احتجاجی تحریک دن بدن زورآور ہوتی جارہی ہے اورعوام یہ خیال کرنے لگے ہیں کہ ان کے منہ سے آخری نوالہ تک چھین لیا گیا ہے۔ (جمشید عالم‘ لاہور)