پاکستانی معیشت کو آجکل کئی مشکلات درپیش ہیں لیکن سر فہرست مہنگائی مہنگائی اور مہنگائی بلا شبہ عالمی سطح پر ایل این جی، خام تیل اور کوئلے کی قیمتوں میں بلند ترین اضافہ ہوا ورلڈ فوڈ اآرگنائیزیشن کے مطابق اس سال زرعی اجناس کی مہنگائی کا 10سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا لیکن پاکستان میں ایک جانب ڈیمانڈ اینڈ سپلائی کا فرق اور دوسری طرف روپے کی قدر میں گراوٹ سے مہنگائی کی شدت میں تباہ کن اضافہ کردیا ہے۔ پاکستانیوں کی قوت خرید خطے میں سب سے کم ہے اسی لئے پاکستان میں مہنگائی اور بھی زیادہ محسوس ہو رہی ہے اور لوگ کافی تکلیف میں ہیں اب جبکہ آئی ایم ایف سے معاہدہ ہونے کے بعدآئی ایم ایف اور پاکستان کے درمیان 6 ارب ڈالر قرض کی بحالی کا معاہدہ طے پاگیا ہے جس کے تحت پاکستان کو آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ کی منظوری کے بعد1 ارب 5 کروڑ 90 لاکھ ڈالر کی اگلی قسط جاری کی جائے گی نئی قسط ملنے کے بعد پاکستان کو فراہم کردہ رقم 3 ارب 2 کروڑ 70 لاکھ ڈالر ہوجائے گی۔ اس کے علاوہ قرض پروگرام کی بحالی سے پاکستان کو دیگر ممالک اور عالمی اداروں سے فنڈنگ کے حصول میں مدد ملے گی پاکستان نے جون تک تمام کارکردگی اہداف بڑے مارجن سے پورے کیے، منی لانڈرنگ اور ٹیرر فنانسنگ کیخلاف بھی پیش رفت کی۔ کورونا وبا کیخلاف پالیسی اقدامات سے مضبوط معاشی بحالی ہوئی اور ایف بی آر کے ٹیکس محاصل مضبوط رہے، تاہم معاشی بحالی کے اثرات اور اشیاکی عالمی قیمتوں میں اضافہ کے باعث کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں اضافہ اور روپے کی قدر پر دباؤ رہا۔ آئی ایم ایف نے مہنگائی اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں مزید اضافے کا خدشہ بھی ظاہر کیاہے تاہم اس سال معاشی ترقی 4 فیصد سے زیادہ جبکہ اگلے سال 4.5 فیصد رہنے کا امکان بھی ظاہر کیا ہے۔عالمی مالیاتی ادارے نے پاکستان کوایکسچینج ریٹ میں لچک برقرار رکھنے اور زرمبادلہ ذخائر بڑھانے کا مشورہ دیا ہے۔اس کے ساتھ ہی مانیٹری پالیسی کے ذریعے مہنگائی پر قابو پانے اور قانون سازی کے ذریعے اسٹیٹ بنک کی خود مختاری بڑھانے پر بھی زور دیا ہے۔ ماہر معاشیات کے مطابق آئی ایم ایف جب اضافی ٹیکس اکھٹے کرنے کا مطالبہ کرتا ہے تو اس کا مقصد یہ ہے کہ ملک میں سیلز ٹیکس پر دی گئی چھوٹ کو ختم کرنا ہے ۔جب یہ چھوٹ ختم ہوگی تو اِن ڈائریکٹ ٹیکس زیادہ اکٹھا کیا جائے گا جس کا مطلب ہے کہ مصنوعات کی قیمتیں بڑھیں گی جس کا اضافی بوجھ عام صارفین پر پڑے گا۔اسی طرح توانائی کے شعبے میں اصلاحات کا مطالبہ اس شعبے میں گردشی قرضوں کو کم کرنا ہے جو بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے سے ممکن ہے۔ آئی ایم ایف کا مقصد ملک کے تجارتی خسارے کو ختم کرنا ہوتا ہے جس کے لیے طویل مدتی اصلاحات کی ضرورت ہوتی ہے، مگر جب سے کام حکومتوں سے نہیں ہوتا تو پھر حکومت کو مختصر مدتی اقدامات کے طور پر ٹیکسوں میں اضافے اور بجلی و گیس کی قیمتوں میں اضافہ کرنا پڑتا ہے،پاکستان میں دو ہفتوں کے دوران ڈالر مہنگا ہو کر پھر سستا ہو گیا پھر مہنگا ہو گیا ۔یہ بے یقینی کی صورتحال چل رہی ہے، ڈالرمہنگا ہونے سے مہنگائی بھی بڑھتی جا ری ہے۔ آئی ایم ایف سے معاہدہ ہونے کے بعد لگتا ایسا ہے کہ اب یہ بے یقینی کی صورتحال ختم ہو جائے گی، ڈالر کی قیمت میں استحکام آئے گا ڈالر مہنگا ہونے کی ایک وجہ افغانستان کی صورتحال بھی بتائی جا رہی ہے کیونکہ افغانستان کے فار ن کرنسی ریزرو منجمد ہیں۔ افغانستان میں ڈالر کی شدید کمی ہے اور خیال کیا جا رہا ہے کہ ڈالر افغانستان جانے کی وجہ سے ڈالر مہنگا ہو رہا ہے۔ 16 اگست کو جب طالبان نے افعانستان کی حکومت سنبھالی تو ڈالر 164 روپے کا تھا تین ماہ میں 12 روپے مہنگا ہو کر 176 کا ہوا پھر 180 تک گیا اور اب پھر نیچے آ رہا ہے اس کے علاوہ پاکستانی روپے پر دبائو کی وجہ ہمارا تجارتی خسارہ بھی ہے۔ اس مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں پچھلے سال سے تین گنا زیادہ امپورٹ ہو ئیں اور تجارتی خسارہ 100 فیصد سے زیادہ ہو چکا ہے، اس سال جولائی تا ستمبر تجارتی 11 ارب 6سو66 کروڑ ڈالر تھا جو پچھلے سال اس عرصے میں5 ارب 81 کروڑ ڈالر تھا ۔اس مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں کرنٹ اکائونٹ خسارہ 3ارب40 کروڑڈالر ہو چکا ہے جو کہ پچھلے سال اسی عرصے میں86 کروڑ ڈالر سر پلس میں تھا ملک کی خراب معاشی صورتحال میں انرجی سیکٹر کے ڈھائی ہزار ارب روپے کے گردشی قرضے کا کلیدی کردار ہے ۔ سالانہ اربوں روپے نچوڑنے والی سرکاری کارپوریشنز بھی ریاست کے لئے وبال جان ہیں ۔نجکاری کا پرو گرام منجمد ہے۔ ایک حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ اس مالی سال کے ابتدائی چار ماہ میں اوور سیز پاکستانیوں نے 10 ارب 60 کروڑ ڈالرز کی ترسیلات زر بھیجیں اور یہ پاکستان کیلئے اس وقت لائف لائن ہے ۔پاکستان کی لارج اسکیل مینو فیکچرنگ 2 ہندسوں میں گروتھ کر رہی ہے ۔بمپر فصلیں ہو رہی ہیں جو لسٹڈ کمپنیاں ہیں، انکا منافع ساڑھے نو سو ارب روپے ہے۔ جب پچھلی حکومت چھوڑ کر گئی تھی تو اس وقت کوئی چھ سو ارب روپے تھے ایف بی آر کے ریونیو 26 ارب سے زیادہ ہیں،32 فیصد انکم ٹیکس بڑھ رہا ہے یہ ساری چیزیں لوگوں کو نظر نہیں آرہی ہیں،اس وقت حکومت کے اس دعوے کے بر عکس ایک عام آدمی مشکلات سے دو چار ہے جب حکومت کہتی کہ کہ ملکی انڈسٹریاں اچھی چل رہی ہیں، منافع کما رہی ہیں ،لیکن عام آدمی سمجھتا ہے کہ یہ سچ نہیں کیونکہ اسکی روٹی پانی تو نہیں چل رہا، مہنگائی سے اسکی کمر ٹوٹی جا رہی ہے ۔پھلوں کے علاوہ کھانے پینے کی تمام چیزیں مہنگی ہو چکی ہیں اور مزید مہنگی ہوتی جا رہی ہیں۔ مشیر خزانہ کہتے ہیں کہ مجھے اکانومی کی کوئی فکر نہیں معیشت بہتر جارہی ہے،بلکہ آنے والے دنوں میں مزید بہتر ہو جائے گی۔ ایکسچینج ریٹ کی بھی کوئی فکر نہیں ،ڈالر نیچے آ جائے گا۔ مشیر خزانہ نے یہ بھی کہا مجھے عام آدمی کی فکر ہے ،بین الاقوامی سطح پر مہنگائی بڑھ رہی ہے، اس کا اثر پاکستان پر بھی ہو رہا ہے اور اربن مڈل کلاس اور لوئرمڈل کلاس زیادہ متاثر ہو رہی ہے۔ پاکستان میں ڈالر کی اونچ نیچ سے مہنگائی بڑھ رہی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ انفلیشن ریٹ 4 یا 5 فیصد تک رکھے۔ اس سے ڈالر ایک پوزیشن پر برقرار رہے گا دوسرا ڈالر کی غیر یقینی صورتحال سے انویسٹر بھی نہیں ٹکے گا اس کا خیال ہو گا کہ اس طرح کے ماحول میں سرمایہ کاری نہیں ہو سکتی تو حکومت کو کچھ اقدامات کرنے ہونگے۔