مکرمی! زندہ رہنے کیلئے جتنی غذا ضروری ہے دوا اور علاج بھی اتنا ہی اہم ہے۔ دیرینہ بیماریوں کی صورت میں مریض کیلئے نہایت ضروری ہوتا ہے کہ وہ ڈاکٹر کی تجویز کردہ دواؤں کو مسلسل اور مستقل استعمال کرتا رہے ورنہ نتیجہ صحت کی خرابی اور پھر معذوری یا موت بھی نکل سکتا ہے۔ جبکہ کبھی کبھی حادثات اور عمومی بیماریاں بھی جان لیوا ہو جاتی ہیں۔اس صورت میں دواؤں کا مہنگا ہونا ایک بڑے طبقے کی پریشانی کا سبب بن رہا ہے۔ موجودہ صورتحال کے متاثر لوگوں کے دو عمومی طبقے وجود میں آئے ہیں۔ ایک جو ڈاکٹر کی تجویز کردہ خوراک سے کم مقدار میں دوا لیں تاکہ کچھ بچت ہوجائے دوسرا وہ جو دوا مہنگی ہونے کے سبب دوا خریدنے کی استطاعت ہی کھو بیٹھتے ہیں۔ اور وہ دوا بالکل ہی لینا چھوڑ بیٹھتے ہیں۔دنیا بھر میں فلاحی ریاستیں جہاں اپنے شہریوں کی دیگر بنیادوں ضرورتوں کی فراہمی کا اہتمام و انتظام کرنے کو یقینی بناتی ہیں وہیں صحت، خوراک اور تعلیم ان کی اولین ترجیحات ہوتی ہیں جن میں کچھ ادویات کی قیمت سو فیصد اور کچھ 218% فیصد تک بڑھی ہیں۔ یہاں تک کہ کھانسی نزلے کے عام شربت کی قیمت بھی 105% اور وٹامن B-1, B-6, اور B-12کی قیمتوں میں بھی 85% تک بڑھی ہیں، جو عام آدمی کیلئے پریشان کن اور تکلیف کا سبب ہیں کہ اب وہ معمولی دوا بھی خریدنے کے قابل نہیں رہ گئے ہیں۔ مریضوں کی فلاح و بہبود کیلئے حکومتی سطح پر قومی اداروں کا قیام اور ان میں سہولیات کی جودگی کو یقینی بنایا جانا بھی نہایت ضروری ہے۔ ورنہ غریب و متوسط طبقہ دوا لینے کی بجائے موت کو گلے لگانے پر مجبور ہوگا۔ (حماد علی)