لگتا ہے حکومت نواز شریف کو وطن واپس لانے کے لیے ہر ممکن کوشش کرے گی۔ارادہ تو پکا لگتا ہے۔ایک تو وزیر اعظم عمران خان نے کنونشن سنٹر میں منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے منہ پر ہاتھ پھیر کر کہا کہ’’ نواز شریف واپس آئو، میں تمھیں دیکھتا ہوں‘‘۔ پھر ایک انٹرویو میں بھی کہہ چکے کہ ’’مجھے برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن سے بھی بات کرنی پڑی تو کروں گا‘‘۔کیا یہ رویہ درست ہے؟ کیا آپ اسے ذاتی لڑائی سمجھ رہے ہیں؟ تو یقیناً وزیر اعظم عمران خان کے لب و لہجے سے یہی محسوس ہوتا ہے کہ انھوں نے نواز شریف کی واپسی اور اپوزیشن کے احتساب کو اپنے لیے ایک چیلنج بنا لیا ہے، بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ وزیر اعظم نے اپنی کامیابی کا پیمانہ ،نواز شریف کو جیل میں ڈالنا اور پوری اپوزیشن کا کڑااحتساب کرنا ،کو بنا لیا ہے تویہ غلط نہ ہو گا۔ جناب وزیر اعظم! آپ کو احتساب کرنے سے کس نے روکا ہے۔ آپ احتساب ضرور کریں۔میں توبطورِ صحافی چند اہم ایشوز پر آپ کی توجہ مبذول کروانا چاہتی ہوں، کیونکہ ان ایشوز پر آپ کی توجہ کی اشد ضرورت ہے۔ آپ اپنے حصے کا کام تو کیجیے۔جناب ِوزیر اعظم! مہنگائی اور بیروز گاری کس حد تک بڑھ چکی ہے؟ اس کا اندازہ شاید آپ کے آس پاس، دائیں بائیں بیٹھنے والے ، آپ کو بریفنگ دینے والے، شاید آپ کو ہونے نہیں دے رہے ہیں، جبکہ کئی عالمی ادارے آنے والے دنوں میں مزید مہنگائی کی پیش گوئیاں کر چکے ہیں۔سوال یہ ہے کہ آئی پی پیز سکینڈل کے حوالے سے جاری رپورٹ میں جن لوگوں کے نام آئے، کیا اْن کے خلاف کوئی کارروائی ہوئی؟جنھوں نے آٹا چینی کا مصنوعی بحران پیدا کیا، کیا آپ نے اْن مافیاز کے خلاف کوئی اقدام کیا؟آپ نے تو ادویات کی قیمتوں میں اضافے کا نوٹس لینے کا دعویٰ کیا تھا، لیکن آپ کی کابینہ نے تو اْلٹا 262 فیصد تک ادویات کی قیمتوں میں اضافے کی منظوری دے دی ہے۔جناب ِوزیر اعظم! آپ تو سادگی اور کفایت شعاری کے دعوے کرتے تھے، لیکن اربوں روپے مالیت کی 33 بلٹ پروف لگژری گاڑیوں کو اپنے زیر استعمال لانے کے لیے، آپ کی کابینہ نے 1980 کے قوانین و ضوابط(رولز) ہی تبدیل کر دئیے۔2016 میں مسلم لیگ ن کی حکومت نے سارک سمٹ کے لیے وزارتِ خارجہ کے لیے یہ 33 بلٹ پروف لگژری گاڑیاں خریدیں ، جبکہ ای سی سی کے فیصلے اور وزارتِ داخلہ کے این او سی کے مطابق یہ گاڑیاں صرف اور صرف غیر ملکی شخصیات کے لیے استعمال ہونی تھیں۔ مسلم لیگ ن کے دورِ حکومت میں یہ گاڑیاں 6 لاکھ 60 ہزار کلومیٹر ضابطے کے خلاف استعمال ہوئیں، تو اْن کی شامت آ گئی اور نیب نے نواز شریف، شاہد خاقان عباسی اور دیگر سرکاری افسران کے خلاف اپنی تحقیقات مکمل کر کے ایک ریفرنس بھی تیار کر لیا ہے،لیکن جب آپ کے دورِ حکومت میں یہ گاڑیاں خلاف ِ ضابطہ استعمال ہوئیں، تو آپ نے رولز ہی تبدیل کر لیے کہ آپ کے قریبی لوگ کہیں نیب کے شکنجے میں نہ آ جائیں۔سوال یہ ہے کہ آپ کیسے معیار سیٹ کر رہے ہیں؟ آپ کس انصاف کی بات کر رہے ہیں؟جناب ِ وزیر اعظم! ہم نے 92 نیوز کے پروگرام ’’ نائٹ ایڈیشن‘‘ میں 17 ستمبر کو یہ خبر بریک کی تھی کہ نارتھ سائوتھ گیس پائپ لائن کی تعمیر 2 ارب 70 کروڑ ڈالر نہیں، بلکہ صرف ایک ارب ڈالر میں تعمیر کی جا سکتی ہے۔اس حوالے سے ایڈیشنل سیکریٹری پٹرولیم ڈویژن نے ملک و قوم کے بہترین مفاد میں یہ منصوبہ ایک ارب ڈالر کی لاگت میں تعمیر کر کے حق میں نوٹ لکھا، جس پر پٹرولیم ڈویژن کے کئی افراد، بشمول آپ کے معاون ِخصوصی ندیم بابر ناراض ہو گئے، کیونکہ وہ یہ منصوبہ روس کی ایک کمپنی کے حوالے کرنا چاہتے تھے، لہذا ایڈیشنل سیکریٹری پٹرولیم ڈویژن کو اْن کے عہدے سے فارغ کر دیا گیا۔جنابِ وزیر اعظم! کیا آپ نے کسی سے پوچھا کہ کیوں اس افسر کو فارغ کیا گیا؟کیا آپ عوام کو بتا سکتے ہیں کہ وفاقی کابینہ نے 33 بلٹ پروف لگژری گاڑیاں، وزیر اعظم آفس، ایوان ِ صدر، مختلف وزارتوں اور وی وی آئی پیز کے زیر استعمال لانے کے لیے پالیسی اور رولز کیوں بدلے گئے، اس دہرے معیار کو اپناتے ہوئے کس ملکی مفاد کے لیے سوچا جا رہا ہے؟ہمیں بھی ذرا سمجھا دیجیے۔جناب ِ وزیر اعظم اپنے ملک کے کسان کا بھی حال پوچھ لیجیے، جسے آپ گندم کی سپورٹ پرائس 1600 روپے من دینے کو تیار نہیں اور روس سے2500 روپے من گندم منگوا رہے ہیں۔ مطلب اپنے کسان کو فائدہ نہیں دینا اور روس کا کسان آپ کو پیارا ہے، پھر کاٹن سپورٹ پرائس بھی آپ کے دوچہیتے وزیروں نے نہیں بڑھنے دی اور آپ مان گئے، تو جناب وزیر اعظم احساس پروگرام کے لنگر خانے سے نکل کر کچھ احساس اپنے کسان کا کر لیں۔جناب ِ وزیر اعظم! اپوزیشن سے ذرا فرصت مل جائے، تو فرانس جیسے اسلام دشمن ملک کو بھی منہ توڑ جواب دے دیں۔ آپ تو ریاستِ مدینہ کی بات کرتے ہیں، لیکن جس طرح گستاخانہ خاکوں کی تشہیر جیسی ناپاک جسارت کر کے دنیا بھر کے مسلمانوں کی شدید دل آزاری ہو رہی ہے، اس وقت ضرورت ہے کہ اسلامی دنیا کے سربراہان کو باور کروایا جائے اور مغرب کے اس گھنائونے کردار کو بے نقاب کریں۔ فرانس کے سفیر کو احتجاجاً ملک بدر کر دیا جائے۔جناب ِ وزیر اعظم! اب تو لگتا ہے کہ معاشی ا ورسیاسی بحران کہیں بہت پیچھے رہ گیا ہے۔ ہم تو اخلاقی بحران کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ ہم اپنے لیے ہر وہ اقدام جائز تصور کرتے ہیں، جو ہمارے مفاد میں ہو۔ تو سوال یہ ہے کہ کیا آپ صرف اپوزیشن کے گرد گھیرا تنگ کر کے کامیاب ہونا چاہتے ہیں؟میری نظر میں یہ سوچ آپ کو کبھی بھی کامیاب نہیں ہونے دے گی۔ اپوزیشن کے خلاف کارروائی اور احتساب کا کام ،آپ قانون پر چھوڑ دیجیے۔اڑھائی سال بعد آپ کو جواب دینا ہو گا کہ کہاں ہیں؛ ایک کروڑ نوکریاں؟ کہاں ہیں 50 لاکھ گھر؟ کہاں ہے، انصاف کا ایک جیسا معیار؟لیکن لگتا یوں ہے کہ شاید بطورِ وزیر اعظم، آپ کی پہلی اور آخری ترجیح نواز شریف کی واپسی اور اپوزیشن کا احتساب ہے، کیونکہ آپ اب ارادہ پکا کر چکے ہیں۔ کیا کریں کہ منہ پر ہاتھ جو پھیرا ہے!