وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر نے بدعنوانی ‘ ٹیکس چوری اوربے نامی جائیدادوں کے خلاف حکومتی اقدامات کا ذکر کرتے ہوئے پاکستان کے بلیک لسٹ ہونے کے خطرے کی موجودگی کی بات کی ہے۔ اپنے وطن کے لئے مشیر خصوصی کی یہ تشویش بے جا نہیں۔ سیاسی جماعتوں سے لے کر سرکاری اداروں تک میں بدعنوانی کا چلن ہے۔ یہی سیاسی و سرکاری عہدیدار جب کسی طرح کی اہم ذمہ داری پر فائز ہوتے ہیں تو اپنے اثرورسوخ کو بیرون ملک غیر قانونی اثاثے بنانے کے لئے صرف کرتے ہیں۔ اس طرح کا طرز عمل کئی عشروں سے جاری ہے۔ سابق حکومتیں ایسے کام کو بروقت روکنے میں ناکام رہیں۔ رفتہ رفتہ دنیا میں ہماری مالیاتی شناخت مجروح ہوتی رہی۔ یہ سلسلہ یہاں تک آ پہنچا کہ ہمارے مخالف ممالک کو موقع ملا اور انہوں نے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے ذریعے پاکستان کو بلیک لسٹ کرانے کی کوشش شروع کر دی۔ ایف اے ٹی ایف نے گزشتہ برس جون میں پاکستان کو گرے لسٹ میں ڈالا۔ اس فیصلے کا پس منظر یہ تھا کہ پاکستان انسداد منی لانڈرنگ اور ٹیررازم فنانسنگ کے سلسلے میں فنانشل ٹاسک فورس کے ضابطوں پر عملدرآمد کرانے میں ناکام رہا تھا۔ جن دیگر ریاستوں کو گرے لسٹ میں شامل کیا گیا ان میں ایتھوپیا‘ سربیا‘ سری لنکا‘ شام ‘ تیونس‘ ٹرینڈاڈ‘ ٹوباگو اوریمن ہیں۔ ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کے سامنے اس صورت حال سے نکلنے کے لئے جو سفارشات رکھیں ان میں دہشت گردی کے لئے رقوم کی شناخت‘تخمینہ ‘ نگرانی اور اس کے دہشت گردی کے لیے استعمال کے امکانات معلوم کرنا تھا۔ دوسری سفارش میں کہا گیا کہ اینٹی منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کے لئے رقوم کو روکنے والے انتظامی اقدامات کے منفی اثرات سے بچنے کے طریقے ترتیب دیے جائیں۔ تیسری سفارش میں کہا گیا کہ رقم کی غیر قانونی منتقلی یا اس کی خدمات فراہم کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی نوعیت طے کی جائے‘ نمبر چار‘ یہ کہ دہشت گردی کے مقاصد کے لئے رقم کی منتقلی قابو میں رکھی جائے۔ دیگر سفارشات میں کہا گیا کہ ٹیرر فنانس روکنے کے لئے صوبائی اور مرکزی ایجنسیوں کے مابین تعاون بڑھایا جائے۔ تفتیش کاروں اور عدلیہ کی صلاحیت میں اضافہ کیا جائے اور جن افراد کو دہشت گرد قرار دیا جا چکا ہے ان کے خلاف مالیاتی پابندیوں کو موثربنایا جائے تاکہ فنڈز اور مالیاتی خدمات تک ان کی رسائی روکی جا سکے۔ ایف اے ٹی ایف کے گزشتہ جون کے بعد دو اجلاس ہو چکے ہیں۔ دونوں اجلاسوں کے دوران پاکستان نے ان اقدامات سے فنانشل ٹاسک فورس کو آگاہ کیا جو منی لانڈرنگ اور ٹیررفنانسنگ کو روکنے کے لئے اٹھائے گئے ہیں۔ نیشنل کائونٹر ٹیررازم اتھارٹی(نیکٹا) نے ملک کو ایف اے ٹی ایف کی جانب سے بلیک لسٹ ہونے سے بچانے کے لئے جو اقدامات کئے ان کے نتیجے میں حوالہ اور ہنڈی کے خلاف 919مقدمات درج ہوئے۔1209افراد گرفتار ہوئے۔1489.918ملین روپے برآمد کئے گئے۔ ایف آئی اے نے اینٹی منی لانڈرنگ مہم میں 426مقدمات درج کئے۔574افراد کو گرفتار کیا گیا۔ ایف آئی اے کو 176مشکوک رقوم کی منتقلی کی شکایات ملیں۔ جس میں 32پر مقدمات درج ہوئے۔ نیکٹا میں کائونٹر فنانشل ٹیرر ازم انوسٹی گیشن کا شعبہ قائم کیا گیا۔ خیراتی اداروں‘ این جی اوز اور دیگر اداروں کے لئے خصوصی ضابطے ترتیب دیے گئے۔ ستمبر 2019ء میں ایک اہم اجلاس میں پاکستان کے اقدامات کا جائزہ لیا جائے گا کہ اس نے ایف اے ٹی ایف کے ضابطوں پر عملدرآمد کے لئے کس حد تک کامیابی حاصل کی۔ فنانشل ٹاسک فورس کے جون 2019ء میں ہونے والے اجلاس میں پاکستان کی طرف سے منی لانڈرنگ اور ٹیرر فنانسنگ کو روکنے کے لئے کوششوں کو سراہا گیا اور اسے بدستور گرے لسٹ میں رکھ کر موقع دیا گیا کہ آئندہ اجلاس تک وہ اپنے معاملات درست کر لے۔ اگرچہ ہمارے ہمسایہ ملک بھارت کی بھر پور کوشش ہے کہ فنانشل ٹاسک فورس پاکستان کو بلیک لسٹ قرار دیدے۔اس سلسلے میں پاکستان نے ایک طرف داخلی انتظامی امور پر توجہ دی اور دوسری طرف وزیر اعظم عمران خان نے خود ترکی‘ ملائشیا‘ چین اور سعودی عرب سے حمایت کی درخواست کی جو دوران اجلاس پاکستان کو حاصل رہی۔ معاملہ کلی طور پر اس لئے حل نہیں ہو رہا کہ منی لانڈرنگ اور ٹیرر فنانسنگ کے معاملات صرف معروف مذہبی انتہا پسند گروپوں تک محدود نہیں بلکہ ملک کی متعدد بار حکمران رہنے والی جماعتوں کے اہم عہدیدار بھی اس کیچڑ میں لتھڑے دکھائی دیتے ہیں۔ بانی ایم کیو ایم کے لندن میں موجود گھر سے کئی ملین ڈالر نقد پکڑے گئے مگر برطانوی اداروں نے بھارت کے ملوث ہونے کے باعث اس معاملے کو خلاف معمول نظر انداز کیا۔ پاکستان کے کئی سابق حکمران خاندانوں نے یورپ‘ برطانیہ اور متحدہ عرب امارات میں اثاثے بنا رکھے ہیں۔ ان اثاثوں سے متعلق معلومات کا حصول مشکل بنا کر انسداد بدعنوانی اور اینٹی منی لانڈرنگ کوششوں کو کمزورکیا جا رہاہے۔ پاکستان فنانش ٹاسک فورس کو جعلی اکائونٹس کے معاملات سے آگاہ کر چکا ہے۔ اس طرح کالعدم تنظیموں کے اثاثے اوربینک اکائونٹس فریز کرنے سے متعلق پاکستان نے جو اقدامات کئے ان کا اثر اس کی غیر دستاویزی معیشت پر منفی انداز میں پڑا ہے۔ پاکستان معاشی اصلاحات کا جو پروگرام شروع کرچکاہے اس کی سب سے مثبت چیز یہ ہے کہ وہ بین الاقوامی اداروں اور عالمی مالیاتی ضابطوں کو پیش نظر رکھ کر ترتیب دیا گیا ہے۔ وزیر اعظم کے مشیر برائے احتساب شہزاد اکبر ان تمام اقدامات کے باوجود اگر پاکستان کو بلیک لسٹ قرار دیے جانے کے خدشات کا شکار ہیں تو یقینا ایسی کچھ کمزوریاں اب تک متعلقہ اداروں میں موجود ہیں جن کو دور کرنے کے لئے سیاسی جماعتوں اور ریاستی اداروں کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔