ایشیا پیسیفک گروپ (اے پی جی) نے منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت کے خلاف عالمی معیار کے مطابق اقدامات کرنے میں پاکستان کے نظام قانون اور اداروں میں خامیوں کی نشاندہی کی ہے ۔عالمی ادارے ’’گلوبل فنانشل ا ن ٹیگرٹی‘‘ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں بدعنوانی کا رجحان بڑھتا چلا جارہا ہے۔ امریکی ادارے کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 10 سال میں ڈھائی ارب ڈالر غیرقانونی طور پر بیرون ملک منتقل کیے گئے ۔ پاکستان ایسے ترقی پذیر ملک کو بدعنوانی اور ٹیکس چوری کے باعث چھ کھرب ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔ ہر سال 25 کروڑ ڈالر پاکستان سے بیرون ملک سمگل ہو جاتے ہیں۔ سرمایہ کی غیرقانونی منتقلی کو روکنے کے لیے 2016ء کے کمپنیز ایکٹ کے تحت ایس ای سی پی کو فراڈ اور منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کو مالی معاونت کے کیسز کی مشترکہ تحقیقات کرنے کا اختیار دیا گیا تھا مگر بدقسمتی سے اس ادارے کے ایک چیئرمین ریکارڈ ٹمپرنگ اور غیرقانونی طور پر سرمایہ بیرون ملک منتقل کرنے والوں کو تحفظ فراہم کرنے کے جرم میں جیل جا چکے ہیں۔ یہاں تک کہ سابق صدر آصف علی زرداری اور ان کی بہن سمیت متعدد افراد کے جعلی اکائونٹس کے ذریعے 215 ارب سے زائد رقم بیرون ملک منتقلی کا مقدمہ سپریم کورٹ میں زیرسماعت ہے۔ یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ سابق چیئرمین نیب 12 ارب روپے روزانہ کی کرپشن کا انکشاف کر چکے ہیں اسی طرح ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سالانہ 5 ہزار ارب روپے کرپشن کی نذر ہو جاتے ہیں جبکہ پاکستان کا مجموعی قرضہ 28 ہزار ارب روپے تک پہنچ چکا ہے۔ نومنتخب وزیراعظم عمران خان نے گزشتہ روز اسمبلی میں خدا کو گواہ بنا کر لوٹی دولت واپس لانے کے عزم کا اظہار کیا ہے جو یقینا لائق تحسین ہے۔ بہتر ہوگا حکومت لوٹی دولت واپس لانے کے ساتھ اے پی جی نے منی لانڈرنگ کے قوانین میں جن کمزوریوں کی نشاندہی کی ہے ان کے انسداد کے لیے بھی مناسب اقدامات کرے تاکہ ملک سے سرمایہ کی غیرقانونی اڑان کا خاتمہ ممکن ہو اور ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکے۔