جمعہ کی شام ایوان اوقاف میں‘ سرکردہ مشائخ کا ایک وفد، چیئرمین نیشنل مشائخ کونسل خواجہ غلام قطب الدین فریدی کی سرکردگی میں فروکش ہوا، جس کا بنیادی ایجنڈا حالیہ وقف پراپرٹیز ایکٹ2020ء تھا ،جس کے نتیجے میں ملک بھر میں ایسی املاک جو یا تو کسی وقف نامے کے ذریعے وقف ہیں، یا اپنے مصرف/استعمال(Use) کی بنیاد پر وقف کے زمرے میں آتی ہوں ، کو بہرطور حکومت یعنی اوقاف کے پاس رجسٹرڈ ہونا ہے۔ اس پر مشائخ ، سجادگان /مہتمم صاحبان کو فکرمندی لاحق ہے، جو کہ ایک فطری امر ہے، وہ تو وقف پراپرٹیز آرڈیننس 1960ء کی نوازشات سے ہی سنبھل نہ پائے تھے، کہ اب انہیں ایک اور مہم درپیش ہو گئی، اگرچہ موجودہ حالات، اس نوعیت کی کسی قانون سازی کے ہرگز متحمل نہ تھے، اور نہ ہی ملک کے پُرامن مذہبی فضا اور دینی ماحول میں کسی ایسے ارتعاش کا خطرہ مول لیا جا سکتا ہے۔ لیکن ایف اے ٹی ایف کی "گرے لسٹ"سے نکلنے اور "بلیک لِسٹ"سے محفوظ رہنے کے لیے’’ ھل من مزید‘‘ یعنی کچھ اور بھی ہے۔۔۔۔ اور Do Moreکی زد میں ہیں، انسداد منی لانڈرنگ سے متعلق کئی قوانین معرض عمل میں آنے اور عالمی سطح پر ان کی تحسین و ستائش کے باوجود، پاکستان کو اس ضمن میں ابھی کوئی "ریلیف"میسر نہ آسکا ، بلکہ مزید اقدامات کا مطالبہ رُو بہ عمل ہے۔ پاکستان کو گذشتہ اڑھائی سال سے زائد عرصے سے اس ناگوار صورتحال کا سامنا ہے۔ اس "گرے لِسٹ" سے نکلنے کے لیے جن ستائیس نکات پر مشتمل ایکشن پلان پاکستان کو دیا گیا تھا، ان میں سے چونتیس نکات پر عملدرآمد پر سرخروئی کے باوجود، پاکستان کے حق میں کوئی بہتر فیصلہ کی بجائے، ماہِ جون تک اس کی میعاد بڑھا کر ، معاملے کو معرضِ التوا میں رکھا گیا ہے، جس کے سبب مزید اضافی قانون سازی کو زیر کارروائی لانے پر غور و خوض جاری ہے۔ مشائخ ، سجادگان و متولیان کی یہ بات بھی صائب تھی ، کہ اگر یہ سب کچھ "منی لانڈرنگ"یعنی دولت کی غیر قانونی نقل و حمل کے تدارک کے لیے ہی ہے ، تو پھر اس کا اطلاق صرف خانقاہوں ، مسجدوں ، مدرسوں تک ہی محدود کیوں۔۔۔، اس کا دائرہ اثر وہاں تک کیوں نہیں ، جہاں "ارکان بِکتے اور پیسے چَلنے"کی صدائیں ملک کے طول و عرض میں گونج رہی ہیں۔ از خود وزیر اعظم عمران خان اپنے خطاب میں کہہ چکے ہیں کہ یوسف رضا گیلانی کو سینٹ میں کامیاب کروانے کے لئے پیسے اور دولت کا بے دریغ استعمال ہوا‘ انہوں نے خواتین ارکان اسمبلی کا بطور خاص ذکر کرتے ہوئے کہا کہ دیگر ممبران کے ساتھ‘ ان کو بھی بڑی بڑی رقم آفر ہوئی۔ انہوں نے بڑے واشگاف انداز میں کہا کہ میں حکومت میں رہوں یا نہ رہوں ملک کے غداروں کا مقابلہ کرتا رہونگا‘جب تک زندہ ہوں، قانون کی بالادستی کے لئے جدوجہد جاری رکھوں گا۔ انہوں نے کہا کہ: اگر اقتدار چلا بھی گیا تو مجھے کوئی فرق نہیں پڑے گا‘ میں نے کون سی فیکٹریاں لگانی ہیں…یہ تو حالیہ الیکشن کے مابعد وہ ہنگامہ خیزیاں اور معرکہ آرایاں ہیں‘ جو ابھی تھمنے کی بجائے مزید تیز سے تیز تر ہونے کو ہیں۔ جس کا نقطہ کمال چیئرمین سینٹ کے الیکشن کی صورت میں ابھر آنا باقی ہے۔ ہمارے مشائخ اور سجادگان کا یہ سوال تو بجا محسوس ہوتا ہے کہ کیا حالیہ الیکشن میں دولت اور روپیہ پیسے کی یہ نقل و حمل قانونی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مساجد کی ٹوٹی پھوٹی چٹائیوں پر بیٹھنے والوں اور خستہ حال حجروں کے بوریہ نشینوں تک ‘ منی لانڈرنگ کا کھوج کہاں سے اور کیسے ملتا ہے؟ جو زائرین اور اپنے ہاں زیر تعلیم بچوں کی دو وقت کی روٹی بھی بڑی مشکل سے پوری کرتے ہیں۔ جن کی خانقاہوں کے درو دیوار تو اب سالہا سال ‘ چونے اور سفیدی کو بھی ترستے رہتے ہیں۔ یہ علمی‘ دینی اور روحانی مرکز ان سجادگان‘متولیان اور مہتمم صاحبان نے بڑی مشقت اور محنت سے کھڑے کئے اور اس کی بقا کے لئے انہوں نے ہمیشہ بڑی آزمائشیں جھیلیں اور زندگیاں صرف کیں۔ ازخود خواجہ قطب فریدی صاحب زندگی بھر خانقاہی نظام کے احیاء اور صوفیاء کی تعلیمات کے ابلاغ کے لئے سرگرم رہے۔ انہوں نے پنجاب کی نامور جامعات‘دانشگاہوں اور یونیورسٹیز میں بڑی وقیع اور شاندار علمی اور تحقیقی سرگرمیوں کی بنیاد رکھی ۔حال ہی میں اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے شعبہ اردو واقبالیات میں’’خواجہ غلام قطب الدین فریدی۔’’شخصیت اور فن‘‘کے عنوان سے تحقیقی مقالہ بھی ترتیب پا چکا ہے‘جو ان کی خدمات کے اعتراف کا ایک اہم پہلو ہے۔ بہرحال ماضی کے صدرالصدور اور شیخ الاسلام کی طرح میری ذمّہ داری بھی خانقاہ اور حکومت ۔ سرکار اور دربار کے درمیان بہترین اور خوشگوار تعلقات کار کا قیام اور مفاہمت و مصالحت کا استحکام ہے، جس کے لیے ہمہ وقت سرگرمِ عمل رہنا لازمی امر ہے۔ گذشتہ دنوں ڈاکٹر راغب نعیمی نے بھی اس ضمن میں ایک یادداشت تھمائی ، جس کے مطابق: o۔ رجسٹریشن کروانے کے لیے موقر مذہبی اداروں، تنظیمات اور شخصیات کو اعتماد میں لیا جائے۔ o۔ متولیان، واقفین اور منتظمین اوقاف کو باور کروایا جائے کہ اس قانون کے ذریعے صرف وقف اراضی کا ریکارڈ حاصل کر کے انہیں رجسٹرڈ کیا جائے گا اور محکمہ اوقاف ان ذاتی اوقاف /مدارس وغیرہ کو اپنی تحویل میں نہیں لے گا۔ (جبکہ یہ ریکارڈ پہلے ہی محکمہ صنعت ، پولیس اور سیکیورٹی اداروں کے پاس موجود ہے) o۔ پنجاب بھر میں موجود 52000سے زائد مساجد اور 25000سے زائد مدارس و دیگر وقف جائیداد کے لیے محکمہ اوقاف میں الگ سے ڈائریکٹوریٹ بنایا جائے اور اس کے مطابق عملہ کا تعین کیا جائے۔ o۔ رجسٹریشن کروانے کے لیے ابتدائی مدت میں مزید اضافہ کیا جائے۔ o۔ رجسٹریشن کروانے کے لیے باقاعدہ تشہیری مہم چلائی جائے۔ o۔ محکمہ صنعت کے زیر انتظام مساجد کی رجسٹریشن کو ختم کر کے اسے محکمہ اوقاف کے زیر انتظام دے دیاجائے، تاکہ محکمہ اوقاف میں وقف کی رجسٹریشن کے ساتھ ساتھ مسجد کی رجسٹریشن بھی ہو سکے ۔ اگر ایسا نہیں کرتے تو پھر مسجد کی رجسٹریشن کے لیے تین محکموں کے پاس جانا پڑے گا۔ o۔ قانون میں ترمیم کرکے دیر سے رجسٹر کروانے والے منتظمین پر عائد جرمانہ کو مناسب حد تک کم کیا جائے ۔ اس کے ساتھ ساتھ معلومات کی عدم فراہمی پر رکھی گئی سزا اور جرمانے میں بھی مناسب حد تک کمی کی جائے۔ o۔ رجسٹریشن فارم کی شق 7میں صرف اتنا سوال ہے کہ وقف سنی ہے یا شیعہ؟اس لیے مساجد و مدارس کے رجسٹریشن فارم میں مسلک کا خانہ بنایا جائے تاکہ بعد میں بین المسالک جھگڑے نہ ہوں ۔