میرے پاس منی پور اور کشمیر کی کہانی ہے۔ اگر آپ نونہالان پی ڈی ایم کی تقریروں پر میرا تبصرہ چاہتے ہیں تو پیشگی معذرت‘ یہ سوغات بہت سے وقت ضائع کرنے والوں کے ہاں چٹخارے دار لفظوں میں آپ کو مل جائے گی۔ اگر کچھ تاریخی اور تہذیبی تنازعات کو سمجھنا چاہیں تو تشریف رکھئے، خیالات آپ کی تواضع کے لیے پیش کئے دیتا ہوں۔ ہم جس خطے میں آباد ہیں وہاں خوشبودارگلاب ہیں۔ ساتھ کانٹے بھی۔ جو کوئی اپنی قوم او رریاست کو انسان دشمنی کا درس دے وہ بھی کانٹا ہوتا ہے‘ آپ کہہ سکتے ہیں کانٹے چننے والے انسان دوست ہوتے ہیں۔ واقعہ 12 برہنہ خواتین کے احتجاج کا ہے۔ سفید رنگ کا ایک بینر تھا جس پر سرخ حروف سے لکھا تھا "Indian Army Rape us" یہ تیرہ سال پہلے 15 جولائی کا واقعہ ہے۔ درمیانی عمرکی 12 مکمل برہنہ خواتین نے یہ بینر پھیلا رکھا تھا۔ یہ خواتین بھارتی ریاست منی پور کی رہنے والی تھیں۔ جھنجھوڑڈالنے والے اس مظاہرے کی فوری وجہ تھنیجم منورما نامی خاتون کی عصمت دری‘ اس پر تشدد اور پھر اسے سفاکانہ طریقے سے قتل کرنے کا واقعہ بنا۔ مقامی آبادی کا کہنا تھا کہ واقعہ میں ہندوستان کی سب سے قدیم نیم فوجی فورس 17ویں آسام رائفلز ملوث ہے۔ 32 سالہ منورما کو عسکریت پسند قرار دے کر تفتیش کے نام پر اس کے گھر سے اٹھایا گیا۔ اگلے روز اس کی لاش گھر سے چار کلومیٹر دور کھیتوں میں ملی۔ اس کے نسوانی اعضاء میں سولہ گولیاں ماری گئیں‘ چاقو سے بدن کے کئی حصے کاٹے گئے۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ میں بتایا گیا کہ منورما کو کئی بار جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ منی پور کی مائوں کے لیے یہ وہ لمحہ تھا جب ان کی برداشت کا آتش فشاں پھٹ پڑا۔ منی پور کی خواتین نے بھارتی سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں خواتین کی عصمت دری‘ تشدد‘ گرفتاری اور قتل کے خلاف میرا پائبی نامی تنظیم قائم کی۔ میرا پائبی کا مطلب ہے مشعل بردار۔ یہ تنظیم اگرچہ 1977ء میں متوسط طبقے کی مقامی خواتین نے حقوق نسواں کے خیال سے قائم کی تھی لیکن منورما کے قتل نے اس غیرفعال تنظیم میں روح پیدا کردی۔ جس وقت انگریز بھارت اور پاکستان کی شکل میں ہندوستان کی تقسیم کر کے رخصت ہوئے تو منی پور ریاست ایک راجواڑے کی صورت میں برقرار تھی۔ منی پور بطور خودمختار ریاست 1949ء تک موجود تھی۔ اکتوبر 2019ء میں منی پور کے حریت پسندوں نے برطانیہ میں اپنی جلاوطن حکومت کا اعلان کیا۔ اس جلاوطن حکومت کے وزیر خارجہ ناریگ بم سمرجیت کا کہنا ہے کہ وہ اقوام متحدہ سے اپنی حکومت کو جائز تسلیم کرانے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ تب تک انہوں نے لندن میں بیٹھ کر منی پور حکومت چلانے کا عزم کیا۔ سمر جیت نے کہا کہ ہمیں اقوام متحدہ کی طرف سے قانونی حکومت کی حیثیت میں تسلیم کئے جانے کے لیے دوسری اقوام کی مدد درکار ہے۔انسانی حقوق کی مسلسل خلاف ورزیوں اور انسانی آزادیوں کو قید کرنے پر پاکستان منی پور والوں کی بھی سفارتی سطح پر مدد کر سکتا ہے ۔ منی پور بھارت کی سب سے چھوٹی ریاستوںمیں سے ہے۔ اس کی آبادی تیس لاکھ سے کچھ کم ہے۔ یہاں ایک سو کے قریب مختلف جنگجو گروپ ہیں جن کے الگ الگ مطالبات ہیں۔ کچھ بھارت کا حصہ بننے کی بجائے صرف الحاقی حیثیت چاہتے ہیں‘ کچھ خودمختاری کے طلبگار۔ منی پور کی سرحد بنگلہ دیش اور میانمار سے ملحق ہے۔ یہاں کے باشندے اپنے ثقافتی اور سماجی تعلقات کے لیے مشرق کی طرف دیکھتے ہیں۔یعنی میانمار اور بنگلہ دیش کی جانب۔ چند سال قبل پاکستان سے ایک ہندو خاندان بھارت میں رشتے داروں سے ملنے گیا۔ خاندان کئی گھرانوں پر مشتمل تھا۔ پاکستان میں انہیں کوئی تکلیف تھی نہ شکایت۔ بھارت گئے تو کوئی ہندو بھی انہیں سماجی طور پر اپنانے کو تیار نہ تھا۔ حکومت نے الگ تھلگ جگہ پر انہیں چھوڑ دیا جہاں ان بے سہارا خاندانوں نے جھونپڑیاں بنا لیں۔ بھارت میں شناختی دستاویزات نہ ہونے کی وجہ سے انہیں کہیں روزگار ملا نہ کسی نے انہیں بھارتی مانا۔ پچھلے سال ایک خاندان کے 11 افراد کو بھارت میں قتل کردیا گیا۔ پناہ کی تلاش میں بھارت جانے والے ہندوئوں نے آخر پاکستان واپس آنا بہتر جانا۔ دو ماہ پہلے یہ لوگ سندھ میں اپنے گھروں کو لوٹ آئے اور اب بھارت میں اپنے ساتھ روا برے سلوک کی کہانیاں سنا کر بھارت کا چہرہ بے نقاب کر رہے ہیں۔ بھارت تیزی سے تنازعات اور جرائم کی سرزمین بنتا جارہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں خواتین کی عصمت دری کے واقعات پہلے بھی ہوتے تھے‘ 5 اگست 2019ء کے بعد بھارتی فورسز نے کئی طرح کے آپریشن شروع کر رکھے ہیں‘ اکثر کارروائیوں میں خواتین پر ستم توڑے جاتے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں کتنے ہی واقعات ہیں۔ وہ بچی تو یاد ہوگی‘ نو دس سال کی خانہ بدوش بچی جو اپنے جانور چراتے ہوئے بھارتی اہلکاروں اور بی جے پی کے مقامی رہنما کے ہتھے چڑھ گئی۔ اسے مندر میں لے جا کر تشدد کیا گیا‘ اجتماعی زیادتی کی گئی اور پھر اس کی لاش کو سفاکیت کانشانہ بنایا گیا۔ اور بھی واقعات ہیں‘ درجنوں نہیں‘ سینکڑوں لیکن کشمیر کی خواتین نے ان جرائم کے خلاف خود کو منظم نہیں کیا۔ کوئی تنظیم بنا کر اپنی آواز بین الاقوامی برادری تک پہنچانے پر توجہ نہیں دی۔ کشمیر کی تحریک آزادی اب تک بھارت سے آزادی کا مطالبہ کرنے والی دیگر تحریکوں سے الگ تھلگ رہی ہے ، شاید اقوام متحدہ اور دیگر عالمی فورمز پر اسے باقاعدہ تنازع تسلیم کرنے کی وجہ ہو تاہم وقت آگیا ہے کہ بھارت سے نجات کی جدوجہد میں مصروف تحریکیں ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر دنیا کے سامنے حقائق لائے جائیں ۔