وفاقی وزارت اطلاعات و نشریات کے زیر اہتمام پچھلے اکہتر سال سے ادبی جریدہ ماہ نو… باقاعدگی سے شائع ہو رہا ہے، پاکستان میں پچھلی دہائیوں میں درجنوں کی تعداد میں ادبی جریدے شائع ہوتے رہے اور وسائل کی عدم دستیابی کے باعث بند بھی ہوتے رہے، پاکستان میں کبھی کسی بھی حکومت کو توفیق نہ ہوئی کہ وہ ادب و ثقافت کے نمائندہ جرائد کی حوصلہ افزائی کرے۔ بد نصیبی یہ بھی ہے کہ پچھلی سات دہائیوں میں جتنے بھی ادیب شاعر اور فنکار فوت ہوئے، انتہائی کسمپرسی میں اس جہاں سے گئے، لاکھوں روپے مالیت کے اعزاز و اکرام بھی ہمیشہ حکومتوں کے کاسہ لیس لوگوں کے حصے میں آئے، حیرت ہوتی ہے یہ دیکھ کر کہ ماہ نو ابتک کیسے زندہ ہے؟ ماہ نو کا تازہ ترین ایڈیشن عوام دوست شاعر، کالم نگار اور ڈرامہ نگار منو بھائی کی یادوں سے مزین ہے، تین سو چالیس صفحات پر مشتمل اس ایڈیشن کی اشاعت پر جتنی محنت کی گئی ہے وہ قابل تحسین ہے، منو بھائی کی زندگی کا کون سا ایسا گوشہ ہے جس کی گونج اس میں شامل نہ ہو، چالیس سے زیادہ نمایاں لوگوں کے مضامین سے مزین اس جریدے میں کئی انکشافات بھی ہیں، جیسا کہ سب لوگ کہتے ہیں کہ منیر احمد قریشی کو منو بھائی کا قلمی نام احمد ندیم قاسمی صاحب نے عطا کیا تھا، لیکن حال ہی میں انتقال کر جانے والے ادیب اور نقاد ڈاکٹر سلیم اخترنے اپنے مضمون میں اس بات کی نفی کرتے ہوئے لکھا ہے کہ انہیں منیر احمد قریشی(منو بھائی) نے خود بتایا تھا کہ بچپن میں ان کے پڑوس میں ایک ہندو فیملی رہا کرتی تھی،اس گھر میں انہی کی عمر کی ایک لڑکی رہتی تھی جس کے ساتھ وہ کھیلا کرتے تھے، ایک دن اس لڑکی نے انہیں منو کہتے ہوئے ان کی گال پر تھپکی دی، وہی ایک لمحہ تھا جب انہوں نے خود کو منو بھائی کہلوانا شروع کر دیا، منو بھائی سرکاری درباری کالم نگار نہیں تھے، مرحوم بنیادی طور پر غریب عوام کے ترجمان شاعر تھے، وہ کہا کرتے تھے کہ تم اگر اداسی کو چاہوگے تو وہ تم سے گریز کرے گی اور اگر تم اداسی سے فرار حاصل کروگے تو وہ تمہارا تعاقب شروع کر دیگی، اور قبر تک تمہاری جان نہیں چھوڑے گی، منو بھائی عمر بھر اداسیاں خریدتے رہے، وہ کوئی شعر کہتے تو اسے خود گم کر دیتے، اور پھر اس کی گمشدگی پر افسردہ ہو جاتے، وہ بھوک سے بلکتے بلکتے سو جانے والے بچوں کے منو بھائی تھے، وہ زندگی کے آخری لمحوں تک سندس فائونڈیشن کے سربراہ کے طور پر تھیلیسیمیا کے مریض بچوں کا سہارا بنے رہے،اللہ کرے منو بھائی کے چاہنے والے ان کا مشن جاری رکھیں گے۔ ٭٭٭٭٭ اب کچھ یادیں منیر نیازی صاحب کی، جنہیں منو بھائی بھی بڑا شاعر قرار دیتے تھے، میری خوش نصیبی ہے کہ میں کئی بار ان دونوں شخصیات کا میزبان بنا اور ان سے بہت کچھ سیکھا۔ ٭٭٭٭٭ ریگل چوک میری بیشمار یادوں کا امین ہے، وہاں گزرا ہوا ہر ہر دن ایک ایک کہانی ہے، اس زمانے میں جو لوگ اس چوک میں روزانہ ملا کرتے تھے، سب تاریخی کردار تھے ، ریگل چوک کا بس اسٹاپ بہت اہم تھا ، دکھاوے کا زمانہ نہیں تھا، بڑے نام اور بڑے قد کے لوگ بھی بس یا ویگن میں سفر کیا کرتے تھے، قتیل شفائی اور بہت ساری دیگر ہستیوں کے ساتھ منیر نیازی بھی اسی بس اسٹاپ سے گھر واپس لوٹتے،رات سات اور آٹھ بجے کے درمیان منیر نیازی پاک ٹی ہاؤس سے تیز قدموں کے ساتھ چلتے ہوئے یہاں پہنچتے، میرے سلام کے جواب میں وہ روزانہ گونجدار آواز میں ایک ہی فقرہ دوہراتیِ،،کاکا، اپنے پیو نوں کویں چنگا ویلہ آون والا اے، گھبرانا نئیں ، میں بھی جواب میں ایک ہی جواب دیتا ’’ اچھا چاچا جی‘‘ منیر نیازی صاحب سے کئی بار پی ٹی وی میں کسی پروڈیوسر کے کمرے یا اسٹوڈیو فلور پر بھی ملاقات ہوجاتی، منیر نیازی بہت خوبصورت اوروجیہہ آدمی تھے، گرمیوں کے موسم میں شلوار قمیض میں خوب جچتے ، میں ان دنوں آصف شاہکار کے پنجابی پروگرام ’’ نویں رت‘‘ کے لئے اسکرپٹ اور گیت لکھا کرتا تھا، اس پروگرام کی میزبان ستنام محمود تھیں، یہ خاتون تھوڑی سی ایجڈ ہونے کے باوجود مجھے مسرت نذیر کی طرح خوبصورت لگتی تھی، میں انہیں دیکھ کر اکثر سوچتا۔۔ کاش میں بھی عمر میں ان کے برابر ہوتا… بے لگام وقت تیزی سے دوڑتا رہا، اچھا زمانہ آنے کی منیر نیازی کی پیش گوئی تو پوری نہ ہوئی، البتہ ہاشمی صاحب عمر کی نقدی سے جلد ہی محروم ہو گئے اور یادیں ہی باقی رہ گئیں ہاشمی صاحب کی برسی کا سلسلہ شروع ہوا تومصطفی قریشی، طالش صاحب ،الیاس کاشمیری، رشید ساجد، کرنل سفیر، اعجاز وکی۔غلام محی الدین، پرویز مہدی ،عالی شاہ، شمیم احمد خان،علامہ صدیق اظہر،طارق وحید بٹ،اجمل نیازی،مسعود باری، اسلم گورداسپوری ،ناصر بھنڈارہ، شیخ اقبال،حفیظ احمد،زاہد عکاسی، قتیل شفائی،غلام مصطفی آرٹسٹ، میجر رشید وڑائچ، عطاء اللہ شاہ ہاشمی، خورشید محمود قصوری اور حبیب صاحب کی طرح منیر نیازی نے بھی باقاعدگی سے آنا شروع کر دیا۔ برسی کی یہ تقریب آہستہ آہستہ فیسٹیول کی شکل اختیار کر گئی جو الحمد للہ ابتک قائم ہے، لوگوں کو ستائیس اپریل کا دن یاد نہیں کرانا پڑتا ، کئی لوگ تو سال کے سال آپس میں یہیں ملتے ہیں۔ بہت سارے لوگ ہیں،ان بیالیس سالوں کے دوران اس تقریب میں آنے والے کئی اہم لوگ خود ہاشمی صاحب کے پیچھے چلے گئے، برسی والے دن کھانے کے بعد نیازی صاحب اور بعض دوسرے احباب اچھرے والے گھر کی اوپری منزل پر بیٹھ جاتے تھے اور سنہرے دنوں کی یادیں دہرانے کا پیریڈ شروع ہو جاتا، منیر نیازی صاحب میرے بیٹے کی پہلی سالگرہ میں شریک ہوئے تو ٹرپل ایس سسٹرز کے بھائی خلیل احمد نے پہلی بار ان کی اجازت سے کسی محفل میں اپنی اواز کا جادو دکھایا۔ڈاکٹر اجمل نیازی نے فیض احمد فیض پر میری ایک اور ڈاکو منٹری رپورٹ کو اپنے کالم میں سراہا تو ضرور، لیکن یہ بھی لکھا کہ غالب اور اقبال کے بعد اردو زبان کا تیسرا بڑا شاعر فیض نہیں منیر ہے۔ یہ بات کہنے والے اور بھی بہت سارے لوگ اب تک زندہ ہیں۔ ایک دن میں فریدہ خانم کے گھر گیا اور ان سے فرمائش کی کہ وہ منیر نیازی کی کوئی غزل گنگنائیں۔۔۔ فریدہ خانم نے غزل شروع کی تو مجھے احساس ہوا کہ وہ ایک مصرعہ غلط بول رہی ہیں، میں نے فوراً نیازی صاحب کو فون کر دیا، نیازی صاحب ، فریدہ خانم آپ کی غزل گا رہی ہیں ،میرے خیال میں وہ کوئی لفظ غلط کہہ رہی ہیں، نیازی صاحب نے جواب دیا کہ میری اس سے بات کرادو، میں اسے سمجھا تو دوں گا، مگر یاد رکھنا وہ تصیح نہیں کرے گی،، پھر ایسا ہی ہوا نیازی صاحب کے سمجھانے کے باوجود فریدہ خانم نے درستگی نہ کی۔ڈاکٹروں نے ان کے مشروب خاص پینے پر پابندی لگائی تو میرے لئے وہ اسی دن مر گئے تھے، اگر وہ پابندی لگانے والے اس ڈاکٹر کے ہتھے نہ چڑھتے تو شاید کچھ دن اور جی لیتے۔۔ ۔۔ کج شہر دے لوک وی ظالم سن کج سانوں مرن دا شوق وی سی لیکن سچ یہ ہے کہ منیر کو مرنے کا کوئی شوق نہ تھا۔