میں جو اک برباد ہوں آباد رکھتا ہے مجھے دیر تک اسم محمدؐ شاد رکھتا ہے مجھے اس مرتبہ چھبیس دسمبر کو ہمارے محبوب شاعر منیر نیازی کی تیرہویں برسی ہوئی تو ان کی بیگم مسز ناہید منیر نیازی نے روایت سے ہٹ کر نیازی صاحب کی یاد میں نعتیہ مشاعرہ کا اہتمام کیا ۔مجھے بہت اچھا لگا کہ اس متبرک اور مقدس محفل کی فضا میں ناہید منیر نیازی کہنے لگیں کہ ان کا دل خوشی سے بھر گیا ہے کہ ذکر رسول کریم ﷺ سے جیسے ان کا گھر روشنی سے بھر گیا ہے۔ وہ ایک گونہ آسودگی اور خوشی محسوس کر رہی تھیں۔ مرحوم کو ایصال ثواب کے لئے اس انداز کو کیوں نہ سراہا جاتا۔ ساتھ ہی نیازی صاحب کے درجات کی بلندی کے لئے دعا بھی کروائی گئی۔ میں بھی اپنے کالم کو روائتی انداز میں تحریر نہیں کروں گا بلکہ اپنے قارئین کی توجہ منیر نیازی کے اس پہلو کی طرف مبذول کروائوں گا جہاں وہ اپنی سوچ اور فکر کواللہ اور اس کے رسولؐ کی یاد سے جوڑ کر خود کو جلا دیتے ہیں۔ ان کے اسلوب میں ایک چمک آپ کو ایسی بھی ملے گی جہاں آپ کو تخاطب کا طنطنہ اور رعب نظر آئے گا’’سُن بستیوں کو حال جو حد سے گزر گئیں‘‘ آپ کو ایک منفرد اور اچھوتا انداز خدا کی یاد میں بھی نظر آئے گا وہ جو منکشف ہے جگہ جگہ۔ وہ جو سب سے آخری راز ہے۔ اللہ اور رسولؐ سے جو والہانہ عقیدت آپ کو ان کے انتسابات میں بھی نظر آئے گی۔ مثلاً پہلا شعری مجموعہ تیز ہوا اور تنہا پھول۔ خدا کے نام ہے، ماہ منیر کا انتساب رسولﷺ کے نام ہے جبکہ دشمنوں کے درمیان شام امام حسین کے نام اس میں ایمائیت بھی ہے۔ میں دیکھ رہا تھا کہ ماہ منیرکے آغاز ہی میں پانچ کے قریب حمدیں ہیں جنہوں نے ایک عجیب فضا پیدا کی: شام شہر ہوں میں شمعیں جلا دیتا ہے تو یاد آ کر اس نگر میں حوصلہ دیتا ہے تو تسکین اتارتا ہے دلوں میں خدا کا نام خوشبو بکھیرتا ہے گلوں میں خدا کا نام آتا ہے مثل حرف بشارت دم سحر بادسحر کے ساتھ گھروں میں خدا کا نام کہنا میں یہ چاہتا ہوں کہ اس معصوم اور شفاف شاعر کے دل میں کیسے چراغ جلتے تھے۔ ایک امید افزا ماحول یقینا ایک تربیت کی بازگشت ہی تو تھا۔ یہ قرآنی حوالے بھی یونہی شاعری میں در نہیں آتے مثلاً میں تو ان شعروں پر ایک سرشاری میں چلا جاتا ہوں: کوئی حد ہے ان کے جمال کی کوئی حد ہے ان کے کمال کی یہ نماز عصر کا وقت ہے یہ گھڑی ہے دن کے زوال کی اس سے نیازی صاحب کے مطالعہ مشاہدہ اور غورو فکر کا پتہ چلتا ہے۔ اصل میں اپنی بات کو ان کی حمد و نعت تک محدود رکھ رہا ہوں۔ ان کی شاعری پر تو میں اس سے پیشتر بہت کچھ لکھ چکا ہوں کہ ان کی تمثال کاری اور ان کی منفرد شعری فضا انہیں ممتازکرتی ہے۔ وہ سب سے ہٹ کر تھے، کندن سونے کی طرح جس میں ملاوٹ نہیں تھی۔ ایک چشمے اور جھرنے کی طرح جنگل یا دشت میں کھلے پھول کی طرح۔ حمدو نعت میں تو ان کی محبت مؤدت اور عقیدت دوآتشہ ہو جاتی ہے۔ ایک حیرت کا عنصر پڑھنے والے کو بھی گرفتار کر لیتا ہے کہ وہ ہمیشہ نامعلوم سے معلوم کے سفر پر یقین کرتے تھے۔ روایت سے ہٹ کر بات اور نئے انداز میں۔ ایک احساس ایک انداز اختصار و اعجاز ۔میں حیران ہوا کہ ہماری آپا مسز منیر نیازی کہ انہوں نے کس وارفتگی سے نیازی صاحب کے دو نعتیہ اشعار سنائے: فروغ اسم محمدؐ ہو بستیوں میں منیرؔ قدیم یاد نئے مسکنوں سے پیدا ہو بیٹھ جائیں سایہ دا مان احمدؐ میں منیرؔ اور پھر سوچیں وہ باتیں جن کو ہونا ہے ابھی اب ذرا برسی کی تقریب کا بھی ذکر ہو جائے کہ جو نعتیہ محفل تھی اور اس کی نقابت اردو کے پروفیسر ڈاکٹر ایوب ندیم نے کی اور انہوں نے منیر نیازی کے فن شاعری پر بھی پرمغز باتیں کیں۔ صدارت مسز ناہید منیر نیازی نے کی۔ مہمانوں میں کرامت بخاری‘ شہناز مزمل‘ طارق چغتائی‘ انیس احمد ‘ آغا مزمل ‘ گل نسرین ‘ تسنیم کوثر‘ ڈاکٹر خالدہ انور‘ فراست بخاری‘ فاروق وارثی‘ وسیم عباس اور دیگر ،یہ تو شاعر تھے دوسرے مہمانوں میں ایم آر شاہد‘ ندیم نیازی‘ فیصل حنیف اور ارشد مہاروی شامل تھے خاص طور پر عامر نیازی کا ذکر زیادہ اہم ہے کہ وہ اہتمام کرنے میں پیش پیش ہوتے ہیں۔ منیر نیازی ان سے بہت پیار کرتے تھے وہ اہتمام کام و دہن میں بھی معیار کا بہت خیال رکھتے ہیں مجھے ذوالقرنین اور ان کی مسزکا ذکر بھی کرنا ہے کہ یہ جوڑا بھی نیازی صاحب کے مداحوں میں رہا۔ سب شعرا نے ایک ایک نعت سنائی۔ سب کے اشعار لکھنا تو ممکن نہیں اور اگر دوتین کے لکھے تو باقی ناراض ہو جائیں گے۔تاہم ارشد میاں نے منیر نیازی کی ایک نعتیہ نظم اپنی دلکش آواز میں سنائی۔ وہ اپنے قارئین کے لئے میں لکھ دیتا ہوں: ایک باطل وقت کے شام و سحر میں زندگی ایک گم گشتہ حقیقت کے نگر میں زندگی وہ فضا اس دور کی‘ اس میں جمال مصطفی جہل کی تاریکیوں میں شہر سا اک نور کا اس زمانے میں میں اس کا ذکر کرتا کس طرح اس زمانے کے سخن میں فکر کرتا کرتا کس طرح یاب روشن اس قدر تھا اس جہان حسن کا رعب دل میں اس قدر تھا اس بیان حسن کا حوصلہ مجھ میں نہ تھا تو بات کرتا کس طرح یہ مرا منصب نہ تھا تو نعت کہتا کس طرح آخر میں منیر نیازی صاحب کے کمرے میں مہمانوں نے کچھ تصاویر وغیرہ بنوائیں کہ یہ کمرہ مسز منیر نیازی نے نیازی صاحب سے متعلق نوادرات سے سجا رکھا ہے۔ یہاں کبھی ہم پہروں بیٹھا کرتے اور اس عہد کے بے بدل شاعر سے باتیں کرتے۔ چمکتی آنکھیں اور کھلتے ہوئے ہونٹوں کی مسکراہٹیں کون بھول سکتا ہے۔ شہر سخن کا یہ بانکا اور حسین و جمیل شاعر ایک شہزادہ ہی تو تھا۔