ہمارے وزیر اعظم ملک کے اندر موجود گوناگوں مسائل کے عفریت سے جس ناتجربہ کاری سے نمٹ رہے ہیں۔ اس سے وہ اکثر تنقید کی زد میں رہتے ہیں۔ وزیر اعظم کے یوٹرن ہوں یا پھر بیرونی دوروں پر ان کی Slip Of Tongnueسے پیدا ہونے والے تنازعے کوئی نہ کوئی ایشو ضرور خان کے اپنے ہاتھوں سے وجودمیں آ جاتا ہے اور پھر سوشل میڈیا پر باقاعدہ ایک ہیجان کی سی کیفیت ہوتی ہے۔ لیکن جہاں عالمی فورم پر ہمارے وزیر اعظم کے اعتماد ‘ جرات اظہار‘ بے مثال باڈی لینگویج کی بات ہے وہ یہ معرکہ کمال خوبی سے سر کر جاتے ہیں اور اس طرح کہ مخالفت برائے مخالفت کرنے والے بھی عالمی فورم پر وزیر اعظم کی پرفارمنس کے قائل ہو جاتے ہیں۔ عمران خان کی جنرل اسمبلی کے بڑے فورم پر ایک موثر اور شاندار تقریر نے ایک بار پھر ان کے لئے پذیرائی کے دروازے کھول دیے ہیں۔ وزیر اعظم نے جس انداز میں کشمیر کا مقدمہ بالخصوص اور پاکستان اور اسلامو فوبیا کا ایشو ‘ دنیا کے سامنے پیش کیا وہ بے مثال ہے۔ ان کی تقریر بہت واضح ‘ ابہام سے پاک اور مدلل انداز میں تھی۔ عمران خان جس طرح پہلے بھی اپنے بیرونی دوروں پر سلپ آف ٹنگ کا شکار ہوئے اور اس بار بھی ایک دو واقعات ایسے ہوئے تو یقین کریں ہمیں تو یہی دھڑکا سا لگا ہوا تھا کہ وزیر اعظم جنرل اسمبلی میں ہی کوئی ایسی ویسی بات نہ کہہ دیں۔ جس پر خفت اٹھانی پڑے۔ واقفان حال کا کہنا ہے کہ اسی بات کے پیش نظر خیال تھا کہ وزیر اعظم شاید لکھی ہوئی تقریر کریں گے۔ چندروز پیشتر ہمارے اخبار ہی کی خبر تھی کہ وزیر اعظم کی تقریر کا ڈرافٹ تیار کر لیا گیا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے لیکن حرف بہ حرف لکھی ہوئی تقریر کرنے کی بجائے تقریر کی بلٹس یعنی اہم نکات نوٹ کئے اور مدلل انداز میں دبنگ لہجے کے ساتھ بہترین باڈی لینگویج کے ساتھ دنیا کے سامنے ایک شاندار انداز میں پاکستان کا موقف اقوام عالم کے سامنے رکھا۔ مودی کے مظالم‘ دنیا کی کشمیریوں کے حالات پر چپ اور بے حسی، کشمیر میں جنم لیتے ایک انسانی المیے اور متوقع تباہی کی طرف جاتے ہوئے حالات کا ذکر کرتے ہوئے وزیر اعظم کے چہرے کے تاثرات ‘ آواز کا اتار چڑھائو جس طرح‘ پاکستان کے وزیر اعظم کے منہ سے نکلنے والے الفاظ کو موثر اور پرمعنی بنا رہا تھا اس نے پوری دنیا پر ایک دیرپا تاثر چھوڑا۔ یو این کی جنرل اسمبلی میں ایک سو ترانوے ملکوں کے نمائندے موجود تھے اور ایک ایسے عالمی فورم پر جہاں ان گنت مقرر۔ اپنی باری پر آ کر اپنے خیالات دنیا کے سامنے پیش کریں وہاں کسی ایک مقرر کی ایسی آئوٹ سٹینڈنگ تقریر جس کی ہر دلیل سے سننے والوں نے خود کو متفق پایا ایک تاریخی کامیابی ہے۔ اس پر تو کسی کی دو رائے نہیں کہ ماضی قریب میں کسی بھی پاکستانی حکمران نے اس بڑے فورم پر اتنی موثر تقریر نہیں کی۔ ایک موثر پریذنٹیشن کے تمام اصولوں کو خان نے تقریر میں مدنظر رکھا۔ تقریر کا آغاز‘ درمیان‘ اور اختتامیہ سب اپنی اپنی جگہ بہترین تھے لیکن کوئی بھی پریذنٹیشن اس وقت سامعین پر اپنا تاثر چھوڑتی ہے جب اس کا اختتام اس انداز میں ہو کہ سننے والوں کے لئے اپنے موضوع کے اعتبار سے فکر انگیزی کا کلائمکس ثابت ہو۔ وزیر اعظم کی تقریر کا اختتام جس انداز اور جس سوال سے ہوا وہ نہ صرف ان کی جنرل اسمبلی میں تقریر کا کلائمکس تھا بلکہ پورے ایک ہفتے کے کشمیر مشن کا بھی کلائمکس یہی ایک سوال تھا کہ دنیا بتائے کہ وہ سو ارب کی بھارتی منڈی کے ساتھ ہے یا پھر کشمیریوں اور انسانیت کے ساتھ؟یہ حقیقت دنیا کے سامنے دلیل کے ساتھ رکھی کہ اس وقت خطے میں بھارت کی ہٹ دھرمی کشمیریوں پر بدترین ظلم اور 56روز کا مسلسل کرفیو، یہ تمام صورت حال دوایٹمی طاقتوں کو جوہری جنگ کی طرف لے جا سکتی ہے۔ اقوام متحدہ کے ضمیر کو جھنجھوڑا کہ کشمیریوں کی اس بدترین حالت زار کا ذمہ دار اقوام متحدہ بھی ہے۔ کہاں ہیںاستصواب رائے کی قرار دادیں جس کا ضامن اقوام متحدہ تھا اور جن کی رو سے کشمیریوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق دیا گیا تھا۔ چند روز قبل 24ستمبر کو پنجاب یونیورسٹی اور پائنا اور علماء کونسل کے اشتراک سے ایک قومی کشمیر کانفرنس ہوئی۔ اس پروگرام کے روح رواں الطاف حسن قریشی صاحب تھے۔ وہاں کشمیریوں سے بھی ملاقات ہوئی وزیر اعظم آزاد کشمیر مہمان خصوصی تھے۔ باقاعدہ پروگرام سے پہلے چائے پر جو گفتگو ہوئی۔ اس میں آزاد کشمیر کے وزیر اعظم اور جو عام کشمیری تھے۔ وہ پر امید تھے کہ وزیر اعظم عمران خان‘ عالمی فورم پر کشمیر کے مسئلے کو موثر انداز میں اجاگر کریں گے۔ مجھے خوشی ہے کہ وزیر اعظم نے دنیا کے 193ملکوںکے سامنے کشمیریوں کے موقف کوجاندار انداز میں پیش کیا۔ پورے ہفتے کے دوران کشمیرمشن کے تناظر میں عالمی رہنمائوں سے ملاقاتیں کیں انہیں کشمیر پر پاکستان اور کشمیریوں کے موقف سے آگاہ کیا۔ جنرل اسمبلی میں وزیر اعظم عمران خان کی تقریر کی بازگشت سنائی دیتی رہے گی لیکن بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی۔ سفارت کاری ایک مسلسل عمل ہے جو آہستگی سے اور مستقل مزاجی سے جاری رہنا چاہیے۔ بھارت کے ظلم کے مقابل کشمیر پر پاکستان کا جو بیانیہ ہے، اسے بار بار دنیا کے سامنے رکھنا اور انہیں اپنے موقف کا قائل کرنا ایک مسلسل عمل ہونا چاہئے۔ کشمیریوں پر روا رکھا گیا ظلم اس وقت پوری دنیا کے سامنے ہے۔ دنیا میں کشمیریوں کے حق کے لئے آوازیں اٹھ رہی ہیں ۔جنرل اسمبلی میں مہاتیر محمد نے بھی کشمیریوں کے حق کے لئے آواز بلند کی۔ سوال یہ ہے کہ 193ملکوں پر مشتمل یو این میں سب سے اہم اجلاس کیا گزشتہ اجلاسوں کی طرح نشستند‘ گفتند اور برخاستند کے مصداق بے فائدہ ثابت تو نہیں ہو گا۔ کیا وزیر اعظم عمران خان کی یہ تقریر بھی محض ایک تقریر ہی ثابت تو نہیں ہو گی؟ کشمیر کے ایشو پر مسلسل اور متواتر نتیجہ خیز کوششیں کرتے رہنے کی ضرورت ہے۔ کشمیریوں کو گھروں میں قید ہوئے 56روز گزر چکے ہیں اور ہر گزرتے دن کے ساتھ کشمیر میں وقوع پذیر انسانی المیہ بد سے بدترین ہوتا جا رہا ہے! کیا دنیا اب بھی سوا ارب کی بھارتی منڈی دیکھے گی یا پھرمظلوموں اور انسانیت کا ساتھ دے گی!