اسلام آباد(خبر نگار)عدالت عظمیٰ نے موبائل فون سروس پر ودہولڈنگ ٹیکس نہ لینے کا سابق چیف جسٹس میاں ثاقب کا عبوری حکم واپس لے کر موبائل سروس پر تمام ٹیکس بحال کردیئے ہیں ۔چیف جسٹس آصف سعید خان کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل 3رکنی بینچ نے ایک مختصر فیصلے کے ذریعے ازخود نوٹس کیس نمٹاتے ہوئے قراردیا ہے کہ عدالت محصولات کے معاملات میں مداخلت نہیں کریگی،مختصر فیصلہ چیف جسٹس نے پڑھ کرسنایا۔ کیس کی سماعت ہوئی تو حکومت کی جانب سے اٹارنی جنرل پیش ہوئے اور ایک بار پھر عدالتی دائرہ اختیار پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ جسے ٹیکس استثنیٰ چاہیے متعلقہ کمشنر سے رجوع کرے ، ٹیکس کے نفاذ پر ازخودنوٹس کی مثال نہیں ملتی، ٹیکسز پر حکم امتناع کے باعث حکومت اپنی آمدن کے بڑے حصے سے محروم ہے ۔چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ہزاروں روپے وکیل کو دینے پر لوگ ٹیکس دینے کو ترجیح دیتے ہیں، لاکھوں لوگوں سے ٹیکس لیا جارہا تھا جن پر ٹیکس لاگو نہیں ہوتا، ٹی وی لائسنس کا ٹیکس بھی ہر شہری سے لیا جاتا ہے ، ہر ٹی وی دیکھنے پر اِنکم ٹیکس لاگو نہیں ہوتا، ماضی میں مشرقی پاکستان سیلاب ٹیکس نافذ ہوا تھا، مشرقی پاکستان الگ ہوگیا لیکن فلڈ ٹیکس90کی دہائی تک لیا جاتا رہا، پانی اور فون پر تو ٹیکس لگ چکا، اب ہوا پر ٹیکس لگنا باقی ہے ۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ جو ٹیکس کے اہل نہیں ان سے پیسہ لینا بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے ۔ ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ سوشل میڈیا کی شکایت پر ڈی جی ایچ آر نے نوٹ لکھا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ5ججز کا حکمنامہ آ چکا اب یہ باتیں کرنا بے فائدہ ہیں، ججز سے بالاتر کوئی حکم جاری ہو تو الگ بات ہے ، ماضی میں ججز سے بالاتر ہوکر افسران بھی نوٹس جاری کرتے رہے ۔ جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے از خود نوٹس کے طریقہ کار پر سوال اٹھایا اور کہا کہ اس کا استعمال کیسے ہوگا؟ کیا ماضی میں کبھی ٹیکس کے مقدمے میں آرٹیکل184کی شق3کا اطلاق کیا گیا۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ٹیکس دینے کی صلاحیت نہ رکھنے والے شہریوں سے موبائل ٹیکس لیا جارہا تھا،13 لاکھ شہری ٹیکس دہندہ ہیں جبکہ2 کروڑ سے زائد شہریوں سے موبائل ٹیکس لیا جا رہا ہے ،موبائل ٹیکس لینے کے خلاف مقدمہ بنیادی حقوق سے متعلق ہے ۔اٹارنی جنرل نے ایڈوانس ٹیکس کے بارے انکم ٹیکس آرڈیننس کا حوالہ دیا تو جسٹس اعجاز الاحسن نے اگر ہم آپ کی دلیل سے متفق نہیں ہوتے تو کیا چیپٹر 12 ختم ہو جائے ئیگا۔اٹارنی جنرل نے کہا اگر چیپٹر12ختم ہوجاتا ہے تو ٹیکس کی مد میں حکومتی آمدن40فیصد کم ہو جا ئیگی جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا اس کا مطلب موبائل فون کمپنیاں اور صارفین سونے کا انڈہ دینے والی مرغیاں ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ3 مئی 2018 کو موبائل ٹیکس کا معاملہ سپریم کورٹ میں آیا،یہ معاملہ انسانی حقوق سیل کے ذریعے بنچ کے نوٹس میں لایا گیا،اس معاملے کے جائزے کے بعد نوٹسز جاری کیے گئے اور قرار دیا کہ یہ بنیادی انسانی حقوق میں آتا ہے ۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ سپریم کورٹ کے 5 رکنی بنچ نے نوٹسز جاری کیے اور اس حوالے سے وجوہات بھی بیان کی تھیں۔جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے کہا کہ وہ وجوہات پڑھ لیتے ہیں جبکہ چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارے سامنے وہ کیس نہیں ہے ،ہمارے سامنے عبوری آرڈر کا معاملہ ہے ۔چیف جسٹس نے کہا آخری مرحلے تک ہمارے پاس یہ آپشن موجود ہے کہ یہ کہہ دیں مقدمہ مفاد عامہ کا نہیں۔واضح رہے کہ2018چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے موبائل فون کارڈز پر ٹیکس کٹوتی کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے حکومت اور موبائل فون کمپنیوں کو عوام سے ٹیکس وصول کرنے سے روک دیا تھا۔