آج دس محرم الحرام ہے۔ گھر کی ہر شے سے لے کر شہر کے ہر منظر تک غم‘ سوگواری کی کیفیت ہے‘ غم و حزن کی فضا ہے۔ صدیاں گزریں مگر آج بھی انسان نواسہ رسولؐ کی استقامت اور عظیم الشان قربان پر حیران، آپ کی عظمت کو خراج پیش کرتا ہے۔ شاعر کا قلم آج بھی امام عالی ؑ مقام اور آل نبیؐ کی عظمتوں کو سلام پیش کرتا ہے۔ آئیے واقعہ کربلا کے تناظر میں لکھے گئے لازوال اشعار‘ مرثیے اور نوحے پڑھتے ہیں۔ افتخار عارف کے قلم سے نکلے چند لازوال ا شعار دیکھئے: کربلا کی خاک پر کیا آدمی سجدے میں ہے موت رسوا ہو چکی ہے زندگی سجدے میں ہے وہ جو اک سجدہ علی کا بچ رہا تھا وقت فجر فاطمہ کا لال شاید اب اسی سجدے میں ہے اس پہ حیرت کیا لرز اٹھی زمین کربلا راکب دوش پیغمبرؐ آخری سجدے میں ہے …… شرف کے شہر میں ہر بام و در حسینؑ کا ہے زمانے بھر کے گھرانوں میں گھر حسینؑ کا ہے فرات وقت رواں دیکھ سوئے مقتل دیکھ جو سربلند ہے اب بھی وہ سر حسینؑ کا ہے سوال بیعت شمشیر پر جواز بہت مگر جواب وہی معتبر حسینؑ کا ہے ایک نظم کے آخری دو مصرعوں میں دیکھئے کیسے پوری تاریخ سمو دی۔ شجاعت صبر میں ڈھل جائے تو زینب وفا امکان سے آگے نکل جائے تو عباس قمر رضا شہزاد ملتان سے تعلق رکھتے ہیں۔ باکمال شاعر ہیں۔ واقعہ کربلا ان کے لہو میں گھلا ہوا ہے۔ تاریخ عالم میں نواسہ رسولؐ کی اس عظیم قربانی کو اپنے اشعار میں کیسے کیسے رنگوں میں بیان کیا گیا: لہو میں ڈوبے ہوئے خاک میں نہائے ہوئے یہ کون لوگ ہیں دنیائے غم پہ چھائے ہوئے ہمارا کیا کسی خورشید سے ہو ربط کہ ہم ترے چراغ کی لو سے ہیں لو لگائے ہوئے حسینؑ یوں تری بانہوں میں ہے علی اصغر ؑ کہ جیسے ہو کوئی دست دعا اٹھائے ہوئے تشنہ لب لے کے پلٹ آیاعلمدار حسین ؑ اس نے بہتے ہوئے دریا سے بھی انکار کیا آج بھی گونج رہا ہے میری آقا زادی ؑ تو نے خطبہ جو ادا برسر دربار کیا …… اسی لیے تو یہ دریا ادھر نہیں آتا اسے پتا ہے میں پیاسوں کے خاندان سے ہوں بہت بے تاب ہے دریا ہمارا مگر پہنچا نہیں پیاسا ہمارا بہت سے راستے دنیا میں ہوں گے مگر کرب و بلا رستہ ہمارا …… امام دوش پہ اکبر کو جب اٹھانے لگا نظام عالم ہستی بھی ڈگمگانے لگا …… میں اپنے بیٹے ترے سر پہ وار دوں اکبر ؑ تری جوانی پہ قرباں سبھی جواں میرے اسلام آباد میں مقیم باکمال شاعر جلیل عالی صاحب نے کیا عمدہ سلام پیش کیا ہے۔ اس میں واقعہ کربلا کے درد و الم کا بیان بھی ہے اور عصر حاضر میں حیثیت کے دعوے کرنے والی امت مسلمہ کی پسپائی کا تذکرہ بھی موجود ہے: یزیدی عہد ہے امت کی رسوائی نہیں جاتی حسینیت کے دعوے ہیں کہیں پائی نہیں جاتی یہاں جھک جائیں جو سرتاج درویشی انہیں زیبا وہ کیا پائیں کہ جن سے بوئے دارائی نہیں جاتی کبھی پڑھ کر انیس غم سرا کے مرثیے دیکھو تمہیں کس نے کہا ہے دل پر جمی کائی نہیں جاتی صحافی اور شاعر سجاد بلوچ نے مختلف معنی کا کیا کمال شعر کہا ہے: کنار آب سے خیمے ا ٹھا رہے ہیں ہم ہمارا آپ سے جھگڑا نہیں ہے پانی کا سجاد بلوچ کا ہی ایک اور شعر: افق پر چاند محرم کا پھر طلوع ہوا اور اک لکیر پڑی دل کے آبگینے پر …… پیر نصیرالدین نصیرگولڑہ شریف کے یہ اشعار دیکھئے: پانی کی جو اک بوند کو ترسا لب دریا وہ غیر نہ تھا سبط نبی تھی لب دریا اس سوچ نے پہروں دل مضطر کو رلایا وہ بندش آب اور وہ پہرا لب دریا اے ظالموں یوں پیاس سے پیاسوں کی نہ کھیلو پہنچیں نہ کہیں سیدہ زہرا لب دریا جب ابن علی جھوم کے پہنچے سر مقتل اک شور اٹھا صل علیٰ کا لب دریا غم حسین لہو کی طرح جسم و جاں میں گھلا ہوا ہے۔ قیامت تک انسانی آنکھ اس غم میں اشکبار رہے گی۔ علامہ اقبال کے اس لازوال شعر پر کالم ختم کرتی ہوں۔ غریب و سادہ و رنگیں ہے داستان حرم نہایت اس کی حسین ؑ ابتدا ہے اسماعیل ؑ