گولڈہ مائیر اسرائیل کی چوتھی اور صیہونی ریاست کی پہلی خاتون وزیر اعظم تھیں،جو1969سے 1974تک اسرائیل کی وزیر اعظم رہیں آنجہانی گولڈہ 1898ء میں یوکرین میں پیدا ہوئی تھیں وہ ایک استاد تھیں۔یہ 73ء کی بات ہے،جب اسرائیل کے اپنے عرب ہمسائیوں ممالک سے تعلقات شدید کشیدہ تھے،دونوں جانب فوجیں الرٹ تھیں،اسرائیلی حساس ادارے کی اطلاعات گولڈہ کے لئے پریشان کن تھیں۔اسے بتایاجارہاتھا کہ عرب ممالک فیصلہ کن جنگ کی طرف بڑ ھ رہے ہیں،ان ہی دنوں ایک امریکی سینیٹر اسرائیل کے دورے پرآیا وہ اسلحہ کمیٹی کا سربراہ بھی تھا،گولڈہ مائیر نے اس سے ملنے کی خواہش ظاہر کی،وقت طے ہوا۔امریکی سینیٹر کو گولڈہ مائیر کے گھر پہنچا دیا گیا،اسرائیلی وزیر اعظم نے اسے اپنے گھر میں مسکراتے ہوئے خوش آمدید کہا اور سیدھا باورچی خانے میں چلی گئیں، چولہے پر چائے کے لئے پانی رکھ دیا، جب تک چائے تیار ہوئی گولڈہ امریکی سینیٹر سے جدید لڑاکا طیاروں کے بارے میں کرید کرید کر بات کرتی رہی ،چائے تیار ہوئی تو گولڈہ دو کپ لیے میز پر آگئی اور سلسلہ کلام وہیں سے جوڑا جہاں منقطع ہوا تھا۔اسی چھوٹی سی میز پر چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے گولڈہ نے امریکی اسلحہ سازکمیٹی کے سربراہ کے ساتھ جدید لڑاکا طیارے خریدنے کااس وقت تک کے مہنگے ترین سودوں میں سے ایک سودا کر لیااور اسے کہا کہ لکھت پڑھت کے لئے اپنے سیکرٹری کو میرے سیکرٹری کے پاس بھیج کر اسے تحریری شکل دے دیں،جس وقت یہ سودا ہو ا اسرائیل کی معاشی حالت پتلی تھی جب یہ معاملہ کابینہ میں پہنچا تو کابینہ کے ارکان اپنے ہی وزیراعظم کے خلاف ہوگئے،سب کا یہی کہناتھا کہ اس سودے کے بعد ہم بھوکے مرجائیں گے ، کنگال ہوجائیں گے گولڈہ مائیر تحمل سے سب کی تنقید سنتی رہی اور جب سب بول چکے تو اس نے کہا :میں آپ سب کے ان خدشات کی تائید کرتی ہوں۔ ہو سکتاہے اس معاہدے کے بعدکتنے ہی عرصے ہمیں ایک وقت کا کھانا کھاناہولیکن ہم عربوں سے جنگ جیت جائیں گے۔ تاریخ ہمیںفاتح قرار دے گی اور جب لوگ کسی کو فاتح قرار دیتے ہیں تو یہ نہیںپوچھتے کہ اس قوم دو وقت کا کھاناتھا یاایک وقت کا،انکے ناشتے میں انڈے،مکھن،جیم ہوتا تھا یا ان کے جوتوں کے تلووں میں کتنے سوراخ تھے فاتح صرف فاتح ہوتے ہیں۔ کابینہ قائل ہوگئی اور پھر ناشتے کی میز پر جدید طیاروں کی خریداری کا مہنگا ترین سودا کرنے والی یہ اسکول ٹیچر درست ثابت ہوئی،جنگ میں انہی طیاروں نے مصر ی ائیرفورس کو ہلنے کی بھی مہلت نہیں دی۔ اسرائیل جنگ جیت گیا اورفاتح قرار پایا۔کہتے ہیں اس جنگ کے بعد واشنگٹن پوسٹ کا نمائندہ گولڈہ مائیر سے ملنے پہنچا اور سوال کیا کہ اقتصادی طور پر نہائت سخت وقت میں آپ نے یہ فیصلہ کیسے کیا۔ جواب میں عمر رسیدہ گولڈہ مائیر کے لبوں پر مسکراہٹ نمودار ہوئی کہنے لگی زمانہ طالب علمی میں میرا پسندیدہ موضو ع مختلف ادیان کا مطالعہ اور موازنہ تھا۔میں نے ایک کتاب میں پڑھا کہ جب محمدﷺ کے دنیا سے تشریف لے جانے کا وقت قریب آیا تو گھر میں دیا جلانے کے لئے بھی تیل نہیں تھا۔تب ان کی اہلیہ سیدہ عائشہ صدیقہؓ نے زرہ بکتر گروی رکھ کر تیل لیا اوراس وقت محمد ﷺ کے حجرے کی دیوار سے سات یا نو تلواریںلٹک رہی تھیں ،گولٖڈہ نے فاتح اسپین طارق بن زیاد کا بھی ذکر کیا اسکی فوج 72گھنٹے پانی کی ایک چھاگل اور سوکھی روٹی پر گزارہ کرتی تھی۔آدھی فوج کے پاس پورا لباس نہ تھا لیکن یہ بات کتنے جانتے ہیں؟ جو سب کو معلوم ہے وہ یہ کہ مسلمان فاتح تھے۔ آج ہم بھی حالت جنگ میں ہیں ہماری معاشی حالت دگرگوں ہے ،سرحد پار دہلی کسی گدھ کی طرح ہم پر نظریں جمائے بیٹھاہے ۔ہمارا حال یہ ہے کہ ساہوکاروں کے نرغوں میں ہیں، ایک سے لے کر دوسرے کو دیتے ہیں، تیسرے سے لے کر دوسرے کا سود چکاتے ہیں اور چوتھے کی ٹھوڑی پر ہاتھ لگا کر منت سماجت کر کے تعلق واسطے دے کر مہلت لے کر جان چھڑاتے ہیں۔ اس ساری بھاگ دوڑ میں اصل قرض اپنی جگہ موجود رہتا ہے۔ اقتصادی حالت ہمیں سری لنکا بنائے دے رہی ہے ۔خاکم بدہن ہم دیوالیہ ہوئے تو پہلاسوال ہمارے ایٹمی پروگرام کی ’’سیکیورٹی‘‘ پر ہوگا ۔ ایک دیوالیہ ملک کس طرح ایٹمی اسلحے کو محفوظ رکھ سکتا ہے ؟یہ سب کے لئے کھلا خطرہ ہوچکاہے۔ اب اسکی حفاظت اقوام متحدہ کرے گی،کیا ہم اس وقت ایسے کسی تقاضے کے سامنے انکار کرسکیں گے ! سوال یہ ہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم سیرت ﷺ سے سیکھتی ہے تو ہماری آنکھوں میں ایساکون سا موتیا اترا ہوا ہے کہ ہم وہ سب نہیں پڑھ پاتے۔ کیا میرے آقاﷺ نے چادر دیکھ کر پاؤں پھیلانے کا نہیں کہا؟ کبھی سوچا ہے کہ ہمارے اشرافیہ کی چادریں کہاں ہیں اور پاؤں کہاں ؟ شریف برادران کے جاتی امراء کو جانے دیجئے بلاول ہاؤس کا ذکر بھی نہیںکرتا اور بنی گالہ کے محل کو بھی چھوڑدیجئے صرف سرکاری افسران کے ٹھاٹھ باٹھ دیکھ لیں نومبر2018میں سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے سرکاری افسران کی کینالوں پر محیط سرکاری رہائش گاہوں کا نوٹس لیا تھا۔جو تفصیلات عدالت میں پہنچیں وہ منہ میں انگلیاں داب لینے والی تھیں کمشنر سرگودھا کی سرکاری رہائش گاہ 104کینال،ایس ایس پی ساہیوال کا گھر 98کینال،ڈپٹی کمشنر میاں والی اور فیصل آباد کا سرکاری گھر95اور 92کینال پر محیط ملا،صرف پنجا ب میں سرکاری افسران کی سرکاری رہائش گاہوں کا مجموعی رقبہ چھبیس سو کنال بتایا گیاجہاں تیس ہزار سرکاری خدمت گزار ہاتھ باندھے موجود تھے اور ہیں یہ بھی بتایئے کہ ایک مقروض ملک کے صدر،وزیر اعظم کو محل نما گھروں میں رہنے اور کروڑوں روپے کی چم چم کرتی امپورٹڈکاروں میں گھومنے جہازوں میں اڑنے کا حق ہے ؟عوام کی گردن پر چھری رکھ کر قربانی کا تقاضہ کرنے والے ان’بادشاہوں‘‘ کوچھوٹے گھروں میںفالج نہیں ہوگا۔انہیں مرسڈیز میں بیٹھتے ہوئے حیاء کیوں نہیں آتی ،ہمارے دشمن ہمارے نبی ﷺ کی سیرت سے رہنمائی لے کر قوم کو فاتح بنا دیتی ہے توپھرہمیں کیوں موت پڑرہی ہے ہم اپنے جامے سے باہر کیوں نکل رہے ہیں !