چندیوم قبل عالمی ذرائع ابلاغ کے ایک بڑے جریدے’’دی اکانومسٹ‘‘ جولندن سے شائع ہوتاہے نے اپنے تازہ شمارے کے سرورق پرشہہ سرخی میں لکھاکہ خاردارتاروں پرپھول نہیں کھلتے‘‘ مودی کس طرح دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کو خطرے میں ڈال رہے ہیں‘‘ کے عنوان سے شائع ہونے والی اس سٹوری میں وزیراعظم نریندر مودی کی پالیسیوں کا تجزیہ کیا گیا ہے۔حکومت کی پالیسیاں نریندر مودی کو انتخابات جیتنے میں مدد کر سکتی ہیں لیکن وہی پالیسیاں بھارت کے لیے سیاسی زہر ثابت ہو سکتی ہیں۔اسے قبل نریندر مودی کی 2013ء کی انتخابی مہم کے دوران بھی’’ دی اکانومسٹ‘‘ نے ایک رپورٹ شائع کی تھی۔ اس وقت کی کور سٹوری کا موضوع تھا کہ’’ کیا مودی انڈیا کو بچا پائیں گے یا تباہ کر دیں گے‘‘۔ اس کے بعد 24جنوری 2020ء کو امریکہ کے معروف ارب پتی شخصیت جارج سوروس نے کہا کہ قوم پرستی کھلے معاشرے کی سب سے بڑی دشمن ہے۔ انہوں نے انڈیا کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ جمہوری معاشروں کو سب سے بڑا خطرہ قوم پرستی سے ہے۔کانفرنس میں تقریرکرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ دنیا تاریخ کے ایک ایسے مقام پر کھڑی ہے جہاں انسانی تہذیب کے وجود کو خطرہ لاحق ہے۔جارج سورس 40سال سے دنیا کے 120ملکوں میں فلاحی کام کرنے والی تنظیم (Open Society Foundations) کے سربراہ ہیں۔ ڈیووس میں دنیا کے حالات کا ذکر کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ سب سے بڑا اور خوفناک دھچکا انڈیا میں لگا ہے جہاں جمہوری طریقے سے منتخب نریندر مودی ایک ہندو قوم پرست مملکت قائم کر رہے ہیں، جنہوں نے مسلم آبادی والے کشمیر (مقبوضہ جموںو کشمیر) کو اجتماعی طور پر معتوب کر رکھا ہے اور جو بھارت کے اندربھی لاکھوں مسلمانوں کو ان کی شہریت سے محروم کرنے کی طرف گامزن ہیں۔انہوں نے کہا کہ یہ تاریخ کا ایک ایساقدم ہے جہاں ان مسائل سے انسانی تہذیب کا وجود خطرے میں ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس بات کا امکان کم ہے کہ سیاسی رہنما ان چیلنجز کا سامنا کرنے میں عوام کی تمنائوں پر پورے اتریں گے کیونکہ سیاسی رہنما موجودہ صورتحال کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پوری دنیا میں مایوسی کی فضا بنی ہوئی ہے۔ جارج سوروس نے ماحولیاتی صورتحال اور عالمی بے چینی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ آئندہ چند برس صرف امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور چین کے صدر شی جن پنگ کے ہی مستقبل کا نہیں پوری دنیا کے مستقبل کا فیصلہ کریں گے۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور چین کے صدر شی جن پنگ کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔ انھوں نے کہا ڈونلڈ ٹرمپ ایک نوسر باز اور انتہا کے نرگسیت پسند شخص ہیں جو آئینی حدود کی خلاف ورزیاں کر رہے ہیں۔جب کہ چینی صدر شی جن پنگ ٹیکنالوجی کے ذریعے لوگوں کی زندگیوں کو کنٹرول کرتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ اگر یہ دونوں شخص اقتدار میں نہ ہوتے تو دنیا ایک بہتر جگہ ہوتی۔جارج سورس نے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ ذاتی مفاد کو قومی مفاد پر ترجیچ دینے کے لیے تیار ہیں اور وہ اگلے انتخابات میں کامیابی کے لیے سب کچھ کریں گے۔ مودی کے انڈیاپرجارج سوروس نے جونقشہ کھینچا وہ حقائق پرمبنی ہے۔کیونکہ حقائق یہ ہیں کہ مودی نے مقبوضہ کشمیرکے مسلمانوں کا گزشتہ 6ماہ سے ایک کڑامحاصرہ کر رکھاہے جب کہ بھارتی مسلمانوں کووہ بھارت سے بے دخل کرکے بے وطن اوربے گھرکرنے کے منصوبوں پرعمل پیراہیں۔مودی پاکستان کے خلاف زہراگل رہے ہیںاوراسے سبق سکھانے کی کھلم کھلا دھمکیاں دے رہے ہیں۔ اس حوالے سے کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔یہ سب کیاہے یہ مذہب کے نام پراس تفریق کاارتکاب ہے جومودی اورآرایس ایس کانازی ایجنڈاہے۔ پاکستان نے اس صورتحال کا ادراک کرتے ہوئے ،پہلے ہی سے مودی کی مسلمان دشمنی اور جارحیت سے دنیابھرمیں ایک آگاہی مہم شروع کردی ہے اورعمران خان تمام عالمی فورموں پر اپنی ہرتقریر میں مودی اورآرایس ایس کے منصوبوں کوطشت از بام کررہے ہیں اوروہ دنیاکواس امرسے خبردارکررہے ہیں کہ مودی سرکارکی موجودگی میں خطے میں ایٹمی جنگ کے سایے منڈلاتے نظرآرہے ہیں۔پاکستان دنیاکوبتارہاہے کہ مسئلہ کشمیرکواقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں حل کرکے خطے میں بھارتی الخناس کوروکاجاسکتاہے۔دنیاکویہ بات بتانے کی اشدضرورت ہے کہ مودی سرکارکا طرز عمل نہایت جارحانہ اورجاہلانہ ہے اور یہ ایک افسوس ناک حقیقت ہے کہ کھلم کھلا مسلم دشمنی اورہندوانتہا پسندانہ نظریات کاپرچارکرنے والے مودی نے کشمیراورپاکستان اوربھارتی مسلمانوںکے خلاف جنگی محاذکھول دیئے ہیں۔ جارج سوروس نے انڈیاسے امریکہ تک مودی سے ٹرمپ تک جس خوفناکی کوطشت از بام کیااس سے صاف دکھائی دے رہاہے کہ کرہ ارض پرموجود سات ارب 80کروڑ انسانوں کا یہ قافلہ ایسے خونخواردرندوں کے نرغے میں ہے جوانسانیت کے خاتمے کیلئے منصوبے ترتیب دے رہے ہیں۔غورکریں توپتاچلتاہے کہ کوتاہ نظر پالیسیوں کا شاخسانہ ہے کہ پچھلی تین دہائیوں سے مشرق سے مغرب تک پوری انسانیت پیچ وتاب کھارہی ہے اورمذہب، رنگ ،نسل اور جنس کی بنیاد پر تفریق کی فلک بوس دیواریں قائم ہیں۔اس تناظر میں مودی، ٹرمپ، پیوٹن اور شی جن پنگ اپنے ملکوں کے حکمران ہو سکتے ہیں، لیکن یہ ہرگز ضمیر انسانی کی نمائندگی نہیں کرتے۔