تحریک انصاف نے اچھا کیا‘حلف برداری کی تقریب سادگی سے کرنے کا اعلان کر دیا۔ تام جھام سے زیادہ خرابی یہ نظر آ رہی تھی کہ عمران خان کے اردگرد موجود بعض لنڈے کے لبرلز ان سے وہ غلطی نہ کرا دیں جو نریندر مودی کی تقریب حلف برداری میں شرکت کی صورت میں میاں نواز شریف سے ہوئی اور ستم رسیدہ کشمیریوں کے علاوہ پاکستانی عوام کے دل و دماغ کو چھلنی کر گئی۔ پاکستان بھارت سے دوستانہ تعلقات کا خواہش مند ہے‘ قائد اعظمؒ نے پاک و ہند روابط کو امریکہ ‘کینیڈا تعلقات سے تشبیہ دی تھی‘ وہ چاہتے بھی یہی تھے کہ پاکستان اور بھارت امریکہ و کینیڈا کی طرح اچھے ہمسایوں کے طور پر تعمیر و ترقی کی منزلیں طے کریں مگر تقسیم ہند کے صدمے سے نڈھال برہمن قیادت نے اس اُمید پر کہ ایک نہ ایک دن نوزائیدہ ملک پکے ہوئے پھل کی طرح بھارت کی جھولی میں آ گرے گامعاندانہ رویہ اختیار کیا‘ اثاثے روکے‘ کشمیر‘ حیدر آباد اور جونا گڑھ پر قبضہ کیا اور ہندو مسلم فسادات کے ذریعے نفرتیں بڑھا دیں ۔چار جنگوں کے بعد بھارتیہ جنتا پارٹی کے اٹل بہاری واجپائی کو یہ احساس ہوا کہ دوطرفہ تعلقات میں بہتری کے بغیر دو ایٹمی قوتیں ترقی و خوشحالی کا سفر خوش اسلوبی سے طے نہیں کر سکتیں تو پاکستان اور مسلمانوں سے نفرت کرنے والے متعصب برہمنی مزاج نے بھارت کی باگ ڈور تنگ نظر ‘ وحشی نریندر مودی کو پکڑا دی جس کا مسلمانوں اور پاکستان کو گالی دیے بغیر ناشتہ ہضم ہوتا ہے نہ کشمیریوں کو اذیت دیے بغیر بلڈ پریشر نارمل رہتا ہے۔کسی پاکستانی کی یہ خواہش نہیں کہ دو طرفہ تعلقات میں بہتری کے لیے اگر نریندر مودی تیار ہو تو ہم خواہ مخواہ اس کی پاکستان آمد میں رکاوٹ ڈالیں یا پاکستانی وزیر اعظم کے دورہ بھارت کی مخالفت کریں لیکن تقریب حلف برداری خوشی کا موقع ہوتا ہے جس میں عموماً وزیر اعظم کے دوست احباب اور ملک کے خیر خواہ غیر ملکی شامل ہوتے ہیں اگر عمران خان کی تقریب حلف برداری میں متحدہ عرب امارات و سعودی فرمانروا یا ولی عہد‘ ترکی‘ ایران‘ چین‘ افغانستان کے صدر اور ملائشیا کے وزیر اعظم شریک ہوں تو چشم ماروشن دل ماشاد‘ مگر نریندرمودی؟ توبہ توبہ خدا خدا کیجیے۔! تحریک انصاف کے اعلان سے کشمیری اور پاکستانی عوام کو مسرت ہوئی اور تقریب کو سادہ رکھنے کی ہدایت کر کے عمران خان نے اپنی تقریر کا بھرم رکھا ‘ تاہم عوام کو حقیقی خوشی اس وقت ہوگی جب سرکاری ایوانوں اور تقریبات میں سادگی کا چلن عام ہو گا ‘ نمودو نمائش کا کلچر دم توڑتا نظر آئے گا اور طبقاتی امتیاز کی علامتیں نیست و نابود ہونگی۔ چار تعلیمی نظام اور انگریزی کی قومی زبان اردو پر فوقیت اس طبقاتی امتیاز کی وہ بدنما علامتیں ہیں جن کا خاتمہ ضروری ہے۔تحریک انصاف اس وقت حکومت سازی میں مصروف ہے اور اپوزیشن اسے ناکام بنانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہے خواب دیکھنے پر پابندی نہیں اور حکومت سازی میں روڑے اٹکانا اپوزیشن کی مجبوری ہے کہ اُس نے بھی اگلے پانچ سال تک اپنے گلشن کا کاروبار چلانا ہے مگر موجودہ مقامی‘ علاقائی اور بین الاقوامی حالات کے تناظر میں اگر حکومت کی طرح اپوزیشن نے بھی ٹھنڈی کر کے کھانے سے گریز کیا تو خسارے میں رہے گی کہ ملکی استحکام کی خواہش مند قوتیں اس مرحلہ پر کسی قسم کی فتنہ پروری کو پسند کرتی ہیں نہ ہمارے دشمن کو خوش کرنے والی حرکتوں کو برداشت کرنے پر آمادہ۔ کسی کو شاید یہ بات پسند نہ آئے مگر 1990ء کے بعد پہلی بار تمام ادارے ایک صفحے پر نظر آتے ہیں اور نئی حکومت سے خوش دلانہ تعاون پر تیار ہیں۔ قومی اداروں میں سابقہ حکمرانوں کی باقیات شرارتوں سے باز نہیں آئے گی اور وہ نئی حکومت کی راہ میں روڑے اٹکانے کے لیے ہرباریک کام کرے گی لیکن یہی عمران خان اور ان کے ساتھیوں کی آزمائش ہے۔ کسی نے امام خمینی سے پوچھا کہ آپ کے نانا امام المرسلین سیدنا محمد ﷺ نے فتح مکّہ کے موقع پر عام معافی کا اعلان کیا مگر آپ نے شاہ کی باقیات اور سوویت یونین و امریکہ کے گماشتہ عناصر کے لیے فوری انصاف کی عدالتیں قائم کر دی ہیں‘ آیت اللہ صادق خلخانی روزانہ درجنوں افراد کو سزائیں سناتا اور اگلے جہاں پہنچاتا ہے۔ امام خمینی نے جواب دیا ’’رحمتہ للعالمین ﷺ نے عفو ودرگزر سے کام لیا مگر عام معافی کا فائدہ اٹھانے والوں نے اس کا بدلہ کربلا میں بدترین انتقام کی صورت میں چکایا‘میں ایک اورکربلا کا انتظار نہیں کر سکتا۔ ‘‘عمران خان انتقام کسی مخالف سے نہ لیں اور ذاتی سطح پر عفو و درگزر کا مثالی نمونہ بنیں کہ یہ سنت سید الانبیاؐ ہے مگر قومی مجرموں اور بدنام زمانہ لٹیروں سے ملکی دولت واپس لینے کے لیے انہیں ہرگز معذرت خواہانہ طرز عمل اختیار نہیں کرنا چاہیے‘ تاہم یہ احتساب بلا تفریق و امتیاز ہو اور تحریک انصاف‘ مسلم لیگ(ن) پیپلز پارٹی سے وابستہ ہر شخص کو احتساب کی چھلنی سے گزارا جائے۔ اگلے تین ماہ میں اگر بڑے بڑے مگرمچھ نہ پکڑے گئے اور انہیں قرار واقعی سزائیں نہ ملیں تو اربوں بلکہ کھربوں روپے کی لوٹی ہوئی دولت حکومت اور ملک کو عدم استحکام سے دوچار کرنے‘ احتجاجی صورتحال پیدا کرنے اور عمران خان کے علاوہ اس کی ٹیم کی کردار کشی کے لیے استعمال ہو گی اور حکومت کو اپنی ساری توانائیاں وضاحتوں اور صفائیوں پر صرف کرنا پڑیں گی۔ میڈیا کا ایک حصہ عمران خان اور تحریک انصاف کی کامیابی سے خائف ہے‘ وزارت اطلاعات اور دیگر محکموں سے اس کا خرچہ پانی بند ہو گیا تو یہ بھی اپوزیشن کا ہمنوا ہو گا۔ سابقہ حکومتوں کی وفادار بیورو کریسی اسے جھوٹی سچی رپورٹیں فراہم کرنے میں پیش پیش ہوگی اور ’’تجربہ کار‘‘ اپوزیشن کی فراخدلانہ کمک بھی حاصل۔ ریحام خان‘ عائشہ گلالئی جیسے سکڈ میزائل ناکام رہے مگر اس ناکامی کا غصہ دو چند ہے اور بدلہ لینا باقی۔ عمران خان کو مخالفین آصف زرداری کے انجام سے دوچار کرنے کے خواہش مند ہیں جبکہ حامی اپنے کپتان کو طیب رجب اردوان اور مہاتیر محمد کی طرح کامیاب و کامران حکمران دیکھنے کے آرزو مند۔ بائیس سال کے عرصہ میں عمران خان نے نوجوان نسل کو جو خواب دکھائے ان کی تعبیر اگر اگلے چھ ماہ میں ممکن نظر آئی تو پھر راوی چین لکھے گا لیکن اگر یہ قیمتی وقت اجلاسوں‘ مشوروں اور وعدوں میں ضائع ہو گیا تو تاریخ کا بے رحم پہیہ گھومتے دیر نہیں لگائے گا۔ سوشل میڈیا پر کپتان کے حامیوں نے انہیں قائد اعظم ثانی قرار دینے کی خوشامدانہ مہم شروع کر دی ہے۔ خوشامد اور چاپلوسی ہمارے معاشرے کا ایک ایسا ناسور ہے ‘ختم کرنے کے بجائے حکمرانوں نے ہمیشہ جس کی افزائش کی۔ ذوالفقار علی بھٹو‘ آصف علی زرداری‘ پرویز مشرف اور نواز شریف کے مالشیے اور لطیفہ باز سب کو یاد ہیں ۔عمران خان اگر اس سے بچ سکیں تو ان کا اپنے آپ پر احسان ہو گا۔ خود فریبی کا آغاز خوشامدیوں کی حوصلہ افزائی سے ہوتا ہے اور انجام عبرت ناک۔مودی کی طرح یہ موذی بھی خطرناک ہے ۔دیکھتے ہیں نئے حکمران اس موذی مرض سے بچ پاتے ہیں یا نہیں؟