22جولائی 2021جمعرات کو دنیا کے کئی بڑے میڈیا ہائوسز نے ایک رپورٹ شائع کی کہ دنیا کے کئی ممالک کی حکومتیں جن میں بھارت کی مودی سرکار بھی شامل ہے ،جو پچاس ہزار لوگوں کے فون کی معلومات ایک سافٹ ویئر کے ذریعہ حاصل کرکے ان کی جاسوسی کرتی ہیں۔ یہ رپورٹ امریکہ کے واشنگٹن پوسٹ، برطانیہ کے دی گار ڈین اور فرانس کے لا مونڈ جیسے معروف اخباروں میں بھی شائع ہوئی ہے۔ اسرئیلی کمپنی’’ این ایس او ‘‘کے پیگاسس سافٹ وئیر سے کے ذریعہ یہ جاسوسی کی جا رہی ہے ۔ 2014کوجب مودی بھارت میں برسراقتدار آئے تب سے دبیزپردے میں چھپا ہوا بھارت کااصل چہرہ کھل کرسامنے آیا ہے۔مودی کی جانب سے مقبوضہ جموںوکشمیرکوبھارتی فیڈریشن میں ضم کرنے کی ناپاک کوششیں لگارتار جاری ہیںجبکہ بھارت کی مسلم اقلیت کاجیناحرام اورپانچ سوسالہ تاریخی بابری مسجد کومندرمیں کردیاگیا۔ دراصل مودی کی مہیب اورخوفناک شکل میں بھارت میں جدیدقسم کی مطلق العنان بادشاہت قائم ہوچکی ہے وہ جواورجیسے فیصلے لیناچاہتی ہے، بلاردوقدح اور بلاروک ٹوک لیتی چلی جارہی ہے ۔ بالکل اسی طرح جیسے پارنے زمانوں میں مطلق العنان بادشاہ ہواکرتے تھے جو اپنے علاوہ کسی پر اعتماد نہیں کرتے تھے، ذرا بھی کسی پر شک ہو کہ کئی اقتدار کے لئے خطرہ بن سکتا ہے اسے وہ فورا ٹھکانے لگوادیتے تھے، پھر چاہے وہ سگے بھائی ہوں یاحقیقی باپ۔ اورتواورمودی بھارت میں حزب اختلاف کے لیڈران، سچ لکھنے والے صحافیوں، انصاف کے لئے آواز بلندکرنے والے سماجی کارکنان، ڈکٹیشن سے انکاری سرکاری عہدے داروں، خوداری کے ساتھ کام کرنے والی بیوروکریسی، عدلیہ کے ججوں، الیکشن کمشنر، فوجی عہدیداروں حتیٰ کہ مودی اپنے وزیروںکی جاسوسی کرتاپایاگیاہے ۔سوال یہ ہے کہ کیامودی بھارت کاوزیراعظم ہے یااسرائیل کا جاسوس۔ ایک اسرائیلی کمپنی کا پیگاس سافٹ ویر‘‘ جو موبائیل فون کے ذریعے لوگوں کی تمام اطلاعات جمع کرتا ہے ـ ۔’’پیگاسس‘‘ کا طریقہ کار کچھ یوں ہے کہ آپ کے موبائیل پر ایک مس کال آتی ہے اور اسی وقت یہ سافٹ ویر آپ کے موبائیل مائیک، کیمرہ اور مکمل ڈیٹاکو اپنے قبضے میں لے لیتا ہے، اب آپ کا موبائل بند رہے یا چلے لیکن آپ اس راڈارپرآچکے اور آپ کے آس پاس کی تمام حرکتیں ریکارڈ ہورہی ہیں، آپ کیا بات کررہے ہیں، کس سے کررہے ہیں، کہاں جارہے ہیں، کون آپ سے ملنے آرہا ہے سب تصویروں کے ساتھ ریکارڈ ہورہا ہے ـ۔جس کے موبائل میں یہ سافٹ ویر داخل ہو چکا ہے چوبیس گھنٹے مستقل کیمرے کی زد میں ہے، اس کا کوئی راز پوشیدہ نہیں رہے گا، خواب گاہیں تک محفوظ نہیں ہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ یہ سافٹ ویر کتنا خطرناک ہے ـ اورمودی کیوں اسے خریدنے اورپھر جاسوسی کرنے پرمجبور ہوئے ۔ اسرائیلی کمپنی کاکہناہے کہ یہ سافٹ وئیر کسی پرائیویٹ پارٹی کو فروخت نہیں کرتی بلکہ وہ صرف دنیاکو برسر اقتدار حکومتوں اورانکی جاسوس ایجنسیوں کو ہی یہ سافٹ وئیر فروخت کرتی ہے، کمپنی کا کہنا ہے کہ اب تک ہم دنیا کی 45حکومتوں کو یہ سافٹ و ئیر فروخت کرچکے ہیں، جن میں سے بھارت بھی شامل ہے اوریہ سافٹ وئیرمودی سرکارخرید چکی ہے ۔دستیاب معلومات کے مطابق ـ اب تک بھارت میں تین سو ایسی شخصیات کی فہرست سامنے آچکی ہے، مودی سرکارکی جانب سے جن کی جاسوسی ہورہی ہے۔بھارت کی ان تین سوشخصیات میں بھارت کے حزب اختلاف کے لیڈر، راہول گاندھی اور ان کے چار قریبی ساتھی، سابق بھارتی الیکشن کمشنر لواسا،بہار کی وزیراعظم ممتا بنرجی کے بھتیجے ابھیشک بنرجی، پرشانت کشور اور بھارتی فوج کے ایک چیف سمیت مختلف پارٹیوں کے کئی لیڈران کے علاوہ بھارت کے 40 سے زائد صحافی جن میں انڈیا ٹوڈے، دی ہندو، انڈین ایکسپریس جیسے بڑے میڈیا ہائوسز سے تعلق رکھنے والے صحافی بھی شامل ہیں۔تعجب یہ ہے کہ حکومت کی مشہور خاتون وزیر اسمرتی ایرانی کے پرسنل سکریٹری، اور وہ خاتون جس نے سابق چیف جسٹس گوگوئی پر جنسی الزامات لگائے تھے، کے گیارہ فون نمبروں پر یہ سافٹ ویر استعمال ہوا ہ۔خود آئی ٹی کے نئے نویلے وزیر اشونی ویشنو جنھوں نے پارلیمنٹ میں حکومت کی طرف سے صفائی پیش کی، خود اُن کا نام بھی اس فہرست میں شامل ہے۔ مودی کے وزیرآئی ٹی نے صفائی پیش کی کہ اس جاسوسی نظام کاانہیں کوئی پتہ نہیںاوروہ کلی طورپراسے بے خبرہیں۔لیکن انہوںنے یہ نہیں بتایا کہ اسرائیلی کمپنی سے وہ سافٹ وئیرکس نے خریدا ہے اور یہ سافٹ وئیر کون اورکہاں بیٹھ کر استعمال کررہاہے ۔سوال یہ ہے کہ مودی کی جاسوسی کرنے سے بھارتی سپریم کورٹ نے جو فرد کی پرائیوسی کو بنیادی حق قرار دیا تھا اس کا کیا بنے گا؟ بھارت میں ایک ہنگامہ کھڑاہوچکاہے اور اس جاسوس سافٹ ویئر کواستعمال کرنے والی مودی حکومت سے اپنی پرائیویسی کو لے کر سوال اٹھائے جارہے ہیں۔ پیگاسس نامی یہ سافٹ ویئر دوسرے سافت ویئر سے مختلف ہے اور زیادہ جدید ہے۔ دوسرے سافٹ ویئر کو کسی کے فون میں داخل کرنے کے لئے پہلے وہاٹس ایپ یا میسج کا استعمال کیا جاتا تھا لیکن اس سافٹ ویئر کو فون میں داخل کرنے کے لئے کسی وہاٹس ایپ پیغام یا میسج کا استعمال نہیں کیا جاتا بلکہ اس کے لئے اس کا فون نمبر چاہیے ہوتا جس کی جاسوسی کرنی ہو اور یہ سافٹ ویئر اس فون میں داخل یا انجیکٹ کر دیا جاتا ہے۔ اس میں تقریباً کسی کلک کی ضرورت پیش نہیں آتی یعنی یہ زیرو کلک ہوتا ہے۔ یہ سافٹ ویئر ہر برینڈ کے فون میں داخل یا انجیکٹ کیا جا سکتا ہے۔ واضح رہے ایک مرتبہ یہ سافٹ ویئر کسی فون میں انجیکٹ کر دیا گیا یا داخل ہو گیا تو پھر اس سافٹ ویئر کو انجیکٹ کرنے والے کو فون کے مالک کا تمام پرائیویٹ ڈیٹا مل جاتا ہے جس میں اس کی کانٹیکٹ لسٹ، کیلنڈر ایونٹس، پیغامات اور وائس کال کی ڈیٹیل وغیرہ شامل ہوتی ہیں۔ اس کے ذریعہ فون کا کیمرہ، مائیکرو فون اور جی پی ایس وغیرہ کو بھی اپنا ہدف بنایا جا سکتا ہے۔ اگر کسی کو یہ پتہ لگ جائے کہ اس کے فون میں یہ سافٹ ویئر انجیکٹ کر دیا گیا ہے تو اس کے لئے یہی بہتر ہوتا ہے کہ وہ اپنا فون بدل لے۔دنیا کی ان اہم شخصیات میں سعودی عرب کے شاہی خاندان کے لوگ، انسانی حقوق کے کارکنان، سیاست دان، ایگزیکٹو، صحافی وغیر شامل ہیں۔ کہا یہ بھی جا رہا ہے کہ جہاں آمرانہ حکومتیں ہیں وہاں اس سافٹ ویئر کا زیادہ استعمال ہو رہا ہے اسی لئے سعودی شاہی خاندان کے لوگ بھی اس میں شامل ہیں۔