24 مارچ 2020 ء وزیراعظم نریندر مودی کے لئے ایک نیا سنگ میل تھا ، جب انہوں نے کورونا وائرس وبا کے پیش نظر سارے ملک میں لاک ڈاؤن نافذ کرنے کا اعلان کیا۔ اسے ہم متوقع اور اچانک لیا گیا فیصلہ ہی کہہ سکتے ہیں اور باالفاظ دیگر قومی جمہوری اتحاد (این ڈی اے) حکومت کی دوسری میعاد کے پہلے سال میں کئے گئے اس فیصلہ نے ہم ہندوستانیوں کی زند گیاں ہی بدل کر رکھ دی ہیں۔ ویسے بھی کورونا وائرس وباء کے پھیلنے اور اس کے بعد لاک ڈاؤن نافذ کرنے سے پہلے ہی آمریت کے ساتھ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی ) اپنا سب سے اہم ایجنڈہ یعنی تخریبی ایجنڈہ کو بڑی تیزی سے آگے بڑھا رہی تھی ، تاہم کورونا کی عالمی وباء نے ہم سب کو پریشان کردیا۔ ہمارے ارمانوں اور خوابوں پر پانی پھیر کر رکھ دیا۔ ان میں وہ عناصر بھی شامل ہیں جو غیر مرئی ذہنیت کے حامل ہیں۔ غیر مرئی ذہنیت سے ہماری مراد ایسے عناصر ہیں جو اپنے ناپاک مقاصد و ایجنڈہ کی تکمیل کیلئے سرگرم ہیں اور گندی ذہنیت رکھتے ہیں۔ مودی کے دو فیصلوں نے مودی کی تقدیر پر اپنا سایہ ڈالا۔ جہاں تک پہلے فیصلہ کا سوال ہے وہ 8 نومبر 2016 ء کو وزیراعظم نریندر مودی کی جانب سے کیا گیا وہ فیصلہ ہے جو انہوں نے اچانک کیا۔ مودی نے 500 اور ہزار روپئے کی کرنسی نوٹوں کے استعمال پر پا بندی عائد کرنے کا راتوں رات اچانک اعلان کیا تھا۔ نوٹ بندی کا فیصلہ بنا سوچے سمجھے اور غلط ارادوں کے ساتھ کیا گیا فیصلہ تھا۔ اس فیصلہ کا یہ اثر ہوا کہ دولت مند اپنی بے تحاشہ رقم کو نئی کرنسی نوٹوں سے تبدیل کرانے میں کامیاب رہے لیکن سخت محنت کی کمائی سے حاصل کی گئی رقم سے غریب محروم ہوگئے۔ مودی۔ 1 نے جو دوسرا بدترین فیصلہ کیا وہ گڈز اینڈ سروس ٹیکس ( جی ایس ٹی) متعارف کرنا اور اس پر عمل آوری کو یقینی بنانا تھا۔ جی ایس ٹی کے بارے میں آج بھی الجھنیں پائی جاتی ہیں۔ مودی نے جی ایس ٹی کس مقصد اور نیت سے نافذ کیا تھا اس کا تو کسی کو پتہ نہیں لیکن ملک کی معیشت اور کمرشل سطح پر رقم کا لین دین کے آزادانہ بہاؤ پر اس کے منفی اثرات مرتب ہوئے، جی ایس ٹی کے نفاذ کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہندوستان کی معیشت 4.2 فیصد کی شرح سے نمو پائی جو پچھلے گیارہ سال میں سب سے کم شرح ہورہی ہے۔ یہ شرح نمور-19 2018 میں 6.1 فیصد تھی۔ کورونا وائرس کی عالمی وباء سے پہلے ہمارے ملک میں بیروزگاری کی شرح 45 برسوں میں سب سے کم تر سطح پر آگئی ہے۔ صنعتی ترقی متاثر ہوئی، پیداوار میں گراوٹ آئی ، خاص طور پر معیشت کے کلیدی شعبے جیسے مینوفیکچرنگ ، تعمیرات، تجارت ، ہوٹلیں ، حمل و نقل معاملات اور مالیاتی خدمات متاثر ہوئے۔ ریزرو بینک آف انڈیا نے (مئی 2020 ئ) میں نجی کھپت میں گراوٹ کا انتباہ دیا تھا۔ معاشی نمو دراصل ایک ایسا مسلسل عمل ہے جس میں بعض موقعوں پر رکاوٹیں آئی ہیں۔ یہ رکاوٹیں اس ہچکی کی طرح ہوتی ہیں جن پر کوئی کنٹرول نہیں کرسکتا لیکن مودی۔2 کے دوران یہ رکاوٹیں یا ہچکچیاں انسان کی کارستانی ہیں۔ ویسے بھی ہماری معیشت پہلے ہی سے گراوٹ کی جانب رواں دواں تھی اور اسے بحال کرنے کیلئے ایک محرک کی ضرورت ہے ، پر افسوس حکمرانی سے جڑے مسائل بشمول نگہداشت صحت ، تعلیم اور غریبوں کی پریشانیوں کا مداوا کرنے کی بجائے مودی۔2 نے اپنے فرقہ وارانہ ایجنڈہ کے ساتھ اسے زہر آلود کرتے ہوئے قوم کو تقسیم کردیا۔ مودی حکومت نے شہر میں ترمیمی قانون 2019 ء بھی منظور کیا جسے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا ہے۔ اس قانون کی مخالفت میں ملک بھر کے اہم تعلیمی اداروں کے کیمپس اور بے شمار مقامات پر غیر معمولی احتجاجی مظاہرے منظم کئے گئے۔ 24-25 فروری دارالحکومت دہلی میں جو تشدد پھوٹ پڑا اس میں 53 قیمتی جانیں گئیں اور درجنوں افراد زخمی ہوئے۔ پولیس مظالم اور تشدد برپا کرنے والوں کے ساتھ پو لیس کی ملی بھگت سے متعلق کئی واقعات کا مشاہدہ کیا گیا لیکن حکومت کے مشاہدہ کرنے کا طر یقہ ہی کچھ اور ہے۔ وہ دوسرے زاویہ سے اس طرح کے واقعات کو دیکھتی ہے۔ دوسری طرف این آر سی اور این پی آر کے اعلانات سے فرقہ وارانہ آگ مزید بھڑک اٹھی۔ 2019 ء میں قانون انسداد غیر قانونی سرگرمیاں منظور کیا گیا۔ اگرچہ اس قانون کا مقصد دہشت گردی کے خلاف لڑائی تھا لیکن اسے ان لوگوں کے خلاف استعمال کیا گیا جنہوں نے حکومت کے خلاف آواز اٹھائی، جن میں قانون حق معلومات کے جہدکار ، محققین ، مفکرین ، فوٹو جرنلسٹس اور دیگر لوگ شامل ہیں۔ اس کا مقصد ناراض عناصر اور مخالفین کو خاموش کرنا ہے۔ دوسری طرف 24 مارچ کو چیزیں اچانک بدل گئیں لیکن مودی نے پھر سے ایک غلطی کا ارتکاب کیا ، اس غلطی کے نتائج و عواقب آج سارا ہندوستان بھگت رہا ہے۔ لاک ڈاؤن نافذ کرنے کے نتجہ میں پہلے ہی سے روبہ زوال معیشت مزید متاثر ہوگئی۔ حقیقت یہ ہے کہ تمام اقتصادی سرگرمیاں کئی ماہ سے منجمد ہوچکی ہیں ، اس کے سنگین نتائج سب کو بھگتنے پڑیں گے۔ اس سے ہندوستان برسوں پیچھے چلا جائے گا۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ-20 2019کے آخری سہ ماہی میں 7 دن کے لاک ڈاؤن میں معاشی نمو گرکر 3.1 فیصد ہوگئی۔ ماہرین اقتصادیات نے اس بات کی پیش قیاسی کی کہ رواں سال معاشی نمو منفی نوعیت کا ہوگا۔ اس سے ریزرو بینک آف انڈیا اتفاق کیا ہے ، یہی نہیں بلکہ آمدنی میں 25 فیصد کمی سے خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد 21.9 فیصد سے بڑھ کر 46.3 فیصد ہوجائے۔ گی۔ (بشکریہ روزنامہ سیاست بھارت )