قائد اعظم محمد علی جناح ؒ نے قیام پاکستان سے قبل اپنے دورہ کشمیر میں فرمایا ’’کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے۔ کوئی قوم یہ برداشت نہیں کر سکتی کہ اپنی شہ رگ کو دشمن کی تلوار کے حوالے کر دے۔‘‘ کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کے لئے پاکستان سمیت دنیا بھر میں 5 فروری کو کشمیر ڈے منایا جاتا ہے۔ ہر سال اس دن تقاریر کی جاتیں ہیں۔ تقاریر میں جذباتی جملوں کا استعمال کیا جاتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیافقط بیانات سے دنیا کو باور کرایا جاسکتا ہے کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے۔ اورکیا بیان بازی کو کشمیر پالیسی کہا جا سکتا ہے ؟ اگر کشمیر کی پالیسی میں کشمیر اور پاکستان لازم و ملزوم ہیں تو ایسا تاثر کیوں دیا جاتا ہے کہ حکومت اس سے خودآگاہ نہیں۔ آگاہ ہوتے تو یقینا حکومت کو بیٹھے بٹھائے بھارت سے کپاس اور چینی کے درآمد جیسے خیالات نہیں سوجھتے۔ یہ تو بھلا ہو ان کا ، جنہوں نے حکومت کو یاد دلایا کہ وہ جن سے تجارت کرنے کا خیال رکھتے ہیں ، ان کے ہاتھ لاکھوں کشمیریوں کے خون سے رنگے ہیں۔ کیا اقتصادی رابطہ کمیٹی میں کوئی ایک رکن بھی ایسا نہیں تھا ، جو کشمیر پالیسی یا کشمیر میں مودی حکومت کے ظلم و ستم سے واقف ہوتا ؟ جو وزیر خزانہ حماد اظہر کے کان میں ڈالتا کہ بھائی بھارت سے تجارت کے لئے کشمیر کے لوگوں کے حقوق کا مطالبہ ہوا میں نہیں اڑایا جا سکتا۔ کشمیر کو نظرانداز کیے بغیر بھارت سے تجارت شروع نہیں کی جا سکتی ؟ سارا قصور نئے وزیر خزانہ کے سر پر ڈالنا بھی درست نہیں۔ جب حکومت کے ایک اہم وزیر فواد چوہدری نے خود یہ تسلیم کیا کہ وزیراعظم عمران خان کو بھارت سے تجارت کرنے کی سمری کا نا صرف بطور وزیر تجارت پتا تھا بلکہ ان کو یہ آگاہی بھی تھی کہ اس پر ای سی سی فیصلہ کرنے والی ہے۔ پھر وزیراعظم کیسے بھول سکتے ہیں کہ ہمارے ملک کی ایک کشمیر پالیسی ہے۔ کشمیر کو پس پشت ڈال کر بھارت سے تعلقات بڑھانے کاسوچا بھی کیسے جا سکتا ہے ؟ کابینہ میں بھارت سے تجارت کی مخالفت ہوئی تو پھر ایک اور اجلاس ہوا۔ اس اجلاس میں عمران خان کی سربراہی میں شاہ محمود قریشی، حماد اظہر، عبدالرزاق داؤد، ڈاکٹر شیریں مزاری اور مشیر ڈاکٹر معید یوسف موجود تھے۔ وزیراعظم کو خیا ل آیا کہ غلط تاثر جائے گا کہ اگر ہم کشمیر کو نظر انداز کرکے بھارت سے تجارت شروع کریں گے۔ پھر وزیراعظم نے کہا کہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں 5 اگست 2019 سے پہلے کی آئینی صورتحال بحال کرے۔ مخالفین کی طرف یہ کہا جاتا ہے کہ اس سارے معاملے میں وزیرخزانہ حماد اظہر کو استعمال کیا گیا ہے۔ حکومت بھارت سے تجارت کی خواہشمند تھی۔ تنقید ہوئی تو حماد اظہر کو سامنے لا کھڑا کیا۔ ایسا پہلی بار بھی نہیں ہوا حکومت سے کشمیر پالیسی میں بھول ہوئی ہو۔ ماضی میں بھارتی انتخاب سے قبل وزیراعظم صاحب کو یہ غلط فہمی بھی رہی کہ بی جے پی کے جیتنے سے کشمیر امن مذاکرات کو آگے بڑھنے کا بہتر موقع ملے گا۔ جانے وزیراعظم نے یہ کیوں نہیں سوچا کہ سانحہ گجرات کے 'ملزم' نریندر مودی بھارتی بے جی پی کی طرف سے وزارت عظمیٰ کے امیدوار نامزد تھے۔ ایک قاتل سے امن کی امید باندھنا بھلا کہاں کی دانشمندی تھی ۔ حالیہ تناظر میں تو وزیراعظم عمران خان خود یہ بھول گئے کہ انہوں نے اقوام متحدہ کی 74 اور 75 ویں جنرل اسمبلی کے اجلاس میں مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم اور بھارت کا مکروہ چہرہ بے نقاب کیا تھا۔ اپنے فی البدیہ تقریر میں دنیا کو بتایا کہ کس طرح بھارت نے سلامتی کونسل کی 11 قراردادوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کی۔کس طرح مودی حکومت نے مقبوضہ وادی میں اضافی فوجی نفری تعینات کی۔کس طرح کرفیو لگاکر 80 لاکھ لوگوں کو گھروں میں محصور کردیا۔ انہوں نے تو اقوام متحدہ سے بھی سوال کیا تھا کہ وہ ایک ارب 20 کروڑ لوگوں کو خوش کرے گا یا عالمی انصاف کو مقدم رکھے گا؟ اور تو اور مارچ میں ہونے والے اسلام آباد سیکورٹی ڈائیلاگ کے افتتاحی سیشن میں بھی عمران خان نے کہا خطے میں امن کے لیے بھارت کو پہلا قدم اٹھانا پڑے گا۔ پھر تجارت میں پاکستان نے پہلا قدم بڑھانے کا کیسے سوچا ؟ نریندر مودی نے پاکستانی وزیر اعظم کو خط لکھا تو جوابی خط میں تعلقات کی بحالی، بہتر تعلقات کی خواہش او رمل کر چلنے جیسے گھسے پٹے الفاظ کا چناو کیا گیا۔ جبکہ ہماری کشمیر پالیسی تو یہ ہے کہ تعلقات کی بحالی کے لئے بھارت کشمیر کے لیے خصوصی اختیارت کی ضامن دفعہ 370 کو بحال کرئے۔ بھارت کے زیرانتظام کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کا ایک برس مکمل ہوا توحکومت کی طرف سے ایک منٹ کی خاموشی کا اعلان کیا گیا۔اب بھلا خاموشی کو کشمیر پالیسی کا کیسے نام دیا جاسکتا ہے ؟ اورابھی کل تک تو عمران خان مودی کو ہٹلر کہتے تھے۔ اب ہٹلر سے امن کی خواہش بھی زور پکڑتی جارہی ہے۔ کون نہیں چاہتا کہ بھارت کے ساتھ دوستی ہو ، امن ہو ؟ سب چاہتے ہیں کہ اس خطے میں امن ہو۔ یہ کوششیں ماضی میں بھی ہو چکی ہیں۔ فروری 1999 میں بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی بس میں بیٹھ کر لاہو رمیں آئے ، مینار پاکستان بھی گئے۔ دسمبر2019 میں نریندر مودی لاہور آئے دوستی کی بات کی۔ لیکن دوستی کی یہ خواہشات کبھی کارگل ، کبھی پٹھان کوٹ ، کبھی ممبئی حملے اور کبھی پلوامہ جیسے حملوں کی نذر ہوتی رہی ہیں۔ تووزیراعظم صاحب ، ڈس انفولیب کے انکشافات نہ بھولیں۔ جس میں بھارت نے پاکستان کے خلاف پروپیگنڈہ کیا۔پاکستان کو بدنام کیا ۔ تو جناب آپ بھارت کے ساتھ امن کی خواہش بھی رکھیں ، کوششیں بھی کریں۔ لیکن کشمیر کا مسئلہ حل کئے بغیر یہ کوششیں ، خواہشات کس کام کی ؟ تو پھر مودی سے ہاتھ ملانے کی جلدی کاہے کو ؟