جمہوریت کے بنیادی اْصولوں کو مسمار کرتے ہوئے مودی حکومت اْن دانشوروں کے خلاف بغاوت کا مقدمہ یا قانونی کارروائی کرنے کے بارے میں سوچ رہی ہے، اِن دانشوروں نے صرف اتنا کہا تھا کہ ہجومی تشدد سے انسانی اقدار اور آزادی خیال کی روح کانپ رہی ہے، حکومت کو یہ شدید غلط فہمی ہے کہ کچھ لوگ ایسی باتیں کرتے ہیں جو موجودہ حکومت کی مرضی و منشاء کے برعکس ہوتے ہیں حالانکہ یہ محض غلط فہمی ہے جن 49 لوگوں نے ایک خط کے ذریعہ مودی حکومت اور بطور ِ خاص وزیراعظم ہند کی توجہ مبذول کروائی تھی کہ مسلم اقلیت اور دلتوں کے خلاف منظم انداز میں انتہائی پرتشدد اور جان لیوا واقعات رونما ہورہے ہیں۔ حکومت کو ان لوگوں کی یہ حق گوئی پسند نہ آئی اور ان کے عمل کو بغاوت قرار دیتے ہوئے بہار کے شہر مظفر نگر میں کسی شخص نے ان کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کے لئے درخواست دی ہے۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ کسی منتخب حکومت کے خلاف یا اس کے مخصوص طرز عمل کے خلاف آواز اٹھانا کسی قانون و آئین کے تحت بغاوت نہیں کہلاتی۔ مشہور قانون داں سراب سوری نے بارہا کہا ہے کہ صرف اس عمل کو بغاوت قرار دیا جاسکتا ہے جس میں حکومت کے خلاف کوئی گروہ ہتھیار اْٹھانے کی ترغیب دیتا ہے یا فون پرکہتا ہے کہ حکومت کے خلاف صف آراء ہوجائیں۔ موجودہ حکومت پر یہ تنقید صرف قانون داں ہی نہیں کررہے ہیں بلکہ عام آدمی بھی ہجومی تشدد کے واقعات پر انتہائی پریشان ہیں۔ اس سے پہلے بھی یہ کہا گیا تھا کہ ہجومی تشدد کے واقعات کو سخت قانون کے ذریعہ نہیں روکا گیا تو خدانخواستہ یہ عام رجحان بن جائے گا، فکر مند ہندوستانیوں نے بلالحاظ مذہب اور عقیدہ کے اس قسم کے واقعات پر گہری تشویش ظاہر کی تھی۔ ہجومی تشدد کے پہلے شکار جن کا تعلق یوپی کے دادری مقام سے ہے، شکار بنے تھے حالانکہ اس وقت جبکہ ان کو گھر سے گھسیٹ کر نکالا گیا اور انہیں ہجوم نے زدوکوب کرتے ہوئے جان سے مار دیا۔ اس کے بعد بھی متعدد واقعات رونما ہوئے اور مسلم نوجوانوں اور معمر افراد کو یوں ہی محض شبہ کی بنیاد پر مجمع نے قتل کردیا تھا لیکن کسی بھی واقعہ کے بعد حکومت نے ایسے مجرموں کے خلاف کوئی سخت کارروائی نہیں کی۔ اس صورتحال نے ان انتہا پسند عناصر کے حوصلے بلند کردیئے اور پھر کئی مقامات پر ایسی وارداتیں رونما ہوئیں، تازہ ترین واقعہ راجستھان کے ضلع الور سے ہے جہاں ایک مسلم نوجوان جوڑا بس کے انتظار میں تھا کہ ’’جئے شری رام‘‘ کا نعرہ لگانے پر اسے مجبور کیا گیا اور اس خاتون کے ساتھ دست درازی بھی کی گئی اور نہ جانے کتنے ایسے واقعات ہوں گے، جو ہر کسی کیلئے باعث تشویش ہیں۔ تبریز انصاری نوجوان کو چوری کرنے کے شبہ کی بنیاد پر پیٹ پیٹ کر ہلاک کردیا گیا۔ پہلو خاں کا بھی یہی حشر ہوا تو آخر کیوں ایسے واقعات ہورہے ہیں جو ملک کے آئین و قانون اور دستور ہند کی صریح خلاف ورزی کے مماثل ہیں۔ ہمارے قانون میں کسی شخص یا گروہ کو قانون اپنے ہاتھ میں لینے کی گنجائش نہیں ہے، پھر کیسے مٹھی بھر افراد گاؤ رکھشکوں کا ڈھونگ رچا کر محض اپنی وفاداری اور گاؤ ماتا سے اپنی عقیدت ظاہر کرنے کے لئے کھلے عام لوگوں کا قتل کرتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ابھی ایسے چند ہی واقعات ہوئے ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ کیوں ہورہا ہے اور ان واقعات کے باوجود انسانیت کے بنیادی حقوق کو اس طرح پامال کرنے والوں کو کوئی سزا نہیں ملتی۔ جن 49 ممتاز شخصیتوں نے وزیراعظم ہند کو مکتوب لکھا جو دستخط شدہ تھا تو کونسی قیامت ٹوٹ پڑی کہ ان فکرمند شہریوں کے خلاف کارروائی کرنے کی کھلی چھوٹ ملی ہے۔ حکومت نے کبھی ان واقعات کے بارے میں کوئی تبصرہ نہیں کیا اور نہ کوئی کارروائی کی کیونکہ جو لوگ اس وقت برسراقتدار ہیں وہ تشدد اور طاقت کے استعمال سے صورتحال کو بدلنا چاہتے ہیں۔ گو وزیراعظم نے ان واقعات پر تشویش ظاہر کی تھیں، کوئی سخت قانونی کارروائی نہیں کی گئی۔ یہ سوچ بالکل غلط ہے کہ صرف حکومت ہندوستانی شہریوں کو یہ غم ستا رہا ہے کہ مخصوص لوگ مخصوص طبقات کی کسی بہانے جان لینا چاہتے ہیں، حکومت کی اس دیدہ دانستہ غفلت کی وجہ سے صورتحال بگڑتی ہی جارہی ہے۔ یہ پہلا اتفاق نہیں جبکہ مشہور شخصیتوں نے مسلمانوں کے غیرمحفوظ ہونے کا ذکر کیا تھا، اس سے پہلے فلمی شخصیات نے بھی کھلے عام یہ کہا تھا کہ اس حکومت میں مسلم اقلیت خود کو غیرمحفوظ محسوس کررہی ہے، یہی حال دلت طبقہ کا بھی ہے، اس کے علاوہ دوسری اقلیتیں جن میں سکھ، عیسائی، پارسی بھی خود کو غیرمحفوظ سمجھتے ہیں، اگر حکومت کا یہ دعویٰ مان بھی لیا جائے تو ان واقعات کو کس خانہ میں رکھا جائے گا، فلمی ہیرو عامر خاں، شاہ رْخ خاں اور سلمان خاں، نصیرالدین شاہ نے بھی ایسی ہی تشویش کا اظہار کیا ہے، اب اگر کوئی شخص یا کوئی گروپ اپنی بات کا ذکر کرتا رہے اور براہ راست وزیراعظم ہند کی توجہ مبذول کرواتا ہے تو اس میں کوئی قباحت محسوس نہیں ہوتی۔ سابق جسٹس سپریم کورٹ کاٹجو نے کچھ دن قبل یہاں تک کہہ دیا کہ ملک کے مسلمان اور ہریجن بے حد فکرمند ہیں۔ ان کا یہ کہنا بھی تھا کہ مودی حکومت اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کیلئے ایسے واقعات اور ایسی ذہنیت کا اظہار کررہی ہے جس سے یہ شبہ پیدا ہوتا ہے کہ کسی مرحلے پر آئندہ یا کچھ برس بعد ہندوستان میں مسلم اقلیت کا حشر وہی ہوگا جو جرمنی میں یہودیوں کا ہوا تھا جہاں ہزاروں یہودیوں کو جرمنی کے باہر نکال دیا گیا تھا اور جس کو ’’ہولوکاسٹ‘‘ (Holocaust) کہا جاتا ہے کیوں حکومت ایسے چند افراد کو لگام نہیں دیتی جو ملک کے قانون، دستور و آئین کی دھجیاں اْڑاتے ہیں۔ ایک اْصولی بات یہ ہے کہ کسی واقعہ پر جو دراصل بدبختانہ ہوتا ہے، اگر حکومت اس پر خاموشی اختیار کرتی ہے اور قانونی کارروائی سے گریز کرتی ہے تو یہ نیم رضامندی سمجھی جائے گی اور آج جو حالات ملک میں پیدا ہورہے ہیں، وہ نیم رضامندی کے مماثل ہیں۔ ایک گروہ کا یہ اعتراض کرنا کہ اقلیوں میں عدم تحفظ کا احساس بڑھتا ہی جارہا ہے کہ کس اعتبار سے غیرقانونی یا حکومت کی مخالفت سمجھا جاسکتا ہے۔ دراصل موجودہ حکومت کسی حساس مسئلہ پر لوگوں کے اظہار خیال اور مخالفت کو برداشت نہیں کرپا رہی ہے۔ (بشکریہ سیاست)