مقبوضہ جموں و کشمیر کی سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کا ٹویٹ پڑھ کر بے ساختہ زبان سے نکلا ؎ کی میرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا محبوبہ مفتی نے لکھا ’’جموں و کشمیر کی قیادت کا 1947ء میں دو قومی نظریہ کو مسترد اور بھارت سے الحاق قبول کرنا آج الٹا پڑ گیا‘‘ مگر محبوبہ مفتی‘ عمر فاروق عبداللہ اور دیگر بھارت نواز لیڈروں کو یہ بات آج یاد آئی‘ جب نریندر مودی نے ہندو توا اوراکھنڈ بھارت کے فلسفے کو مجبور و محکوم کشمیریوں پر بزور طاقت لاگو کر دیا۔ قیام پاکستان سے قبل قائد اعظم سری نگر میں شیخ عبداللہ کو سمجھاتے رہے کہ وہ کانگرس کے جال میں نہ پھنسے‘ جموں و کشمیر کے پاکستان سے الحاق کی جدوجہدمیں مسلم کانفرنس کا ساتھ دے ورنہ وہ اور ان کے ساتھی عمر بھر پچھتائیں گے۔ شیخ عبداللہ نے یہ غلطی ایک بار نہیں بار بار کی۔ فاروق عبداللہ اور ان کے صاحبزادے عمر عبداللہ بھی باپ دادا کے نقش قدم پر چلے‘ محبوبہ مفتی نے بھی اپنے والد مفتی سعید کی طرح جنت نظیر وادی کشمیر اورجموں و کشمیر کے عوام کی تباہی و بربادی میں اپنا حصہ ڈالا۔ حریت کانفرنس اور سید علی گیلانی ‘ میر واعظ عمر فاروق کا ساتھ نہ دیا مگر اب پچھتا رہے ہیں‘ کیا فائدہ؟حریت پسندوں کے ساتھ کھڑا ہونا آج بھی ان کے نصیب میں نہیں۔ کانگرس ہو یا بی جے پی‘ ہر چند سال بعد ان دونوں جماعتوں کی قیادت صرف کشمیر ہی نہیں بھارتی مسلمانوں کو بھی اپنے ظالمانہ اقدامات سے دو قومی نظریے کی صداقت اور قائد اعظم محمد علی جناح کی مومنانہ فراست کی یاد دلاتی ہے مگر حال مست مسلمان خواہ بھارت میں ہوں یا پاکستان میں سنی ان سنی کر دیتے ہیں۔ بے چارے کشمیری عوام تو روز اول سے برہمن ذہنیت کے خلاف نبرد آزما ہیں‘ جس قدر جانی و مالی قربانیاں کشمیری عوام نے اپنے حق خود ارادیت کے لئے دی ہیں فلسطینیوں کے سوا کوئی دوسری قوم دعویٰ نہیں کر سکتی۔ بدقسمتی مگر یہ ہے کہ فلسطینیوں کی طرح کشمیریوں کی قیادت باہم منقسم رہی اور طویل عرصے تک یہ نہ سمجھ پائی کہ انہیں اسرائیل اور بھارت کی فاشسٹ ریاست کس جرم کی سزا دے رہی ہے؟ مسلمان ہونے کے علاوہ ان کا جرم کیا ہے؟۔ نریندر مودی گجرات کا قصائی ہے اور مسلمانوں کا کھلا دشمن۔ کشمیری عوام اور حریت کانفرنس کو اس کا ادراک ہے اور برہان وانی کی شہادت کے بعد ان کی رائے میںمزید پختگی آئی مگر محبوبہ مفتی اور عمر فاروق عبداللہ جیسے لیڈر بدستور تذبذب اور مخمصے کا شکار رہے اور کشمیریوں کے وکیل پاکستان کی قیادت بھی۔ میاں نواز شریف نے مودی سے ذاتی اور خاندانی تعلقات قائم کرنے کی سعی نامشکور کی‘ تحفے میں ساڑھیاں بھیجیں اور نواسی کی شادی میں بلا لیا‘ آصف علی زرداری کو ہر پاکستانی کے دل میں ایک بھارت اور ہر بھارتی میں پاکستان بسا نظر آیا جبکہ عمران خان اس خوش فہمی کا شکار ہوئے کہ نریندر مودی الیکشن جیتنے کے بعد مسئلہ کشمیر حل اور پاکستان سے تعلقات بہتر بنائیں گے ؎ بتوں سے تجھ کو امیدیں خدا سے نو میدی مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے؟ نریندر مودی کے خیالات کسی سے ڈھکے چھپے ہیں نہ عزائم۔ مسلمانوں سے وہ نفرت کرتا ہے اور کشمیریوں کو مٹا کر صرف خطہ زمین پر قبضے کا خواہش مند۔ سفاک وہ اول درجے کا ہے اور چالاک اس قدر کہ اس نے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے لئے وقت وہ منتخب کیا جب پاکستان بدترین معاشی بحران کا شکار ہے اور اندرونی سیاسی خلفشار سے دوچار۔ امریکہ افغانستان سے نکلنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہا ہے اور ٹرمپ کی توجہ اگلے انتخابات جیتنے پر مرکوز۔ ٹرمپ کی طرف سے ثالثی کی تجویز آنے پر بھارت اس خوف کا شکار ہوا کہ کہیں مشرقی تیمور اور ڈارفر کی طرح مسئلہ کشمیر بھی بین الاقوامی مداخلت سے دوچار نہ ہو‘ لہٰذا جس قدر جلد ممکن ہے‘لداخ کو کشمیر سے الگ اور جموں و کشمیر کو بھارتی یونین میں ضم کر کے ٹنٹنا ہی ختم کر دیا جائے۔ جموں و کشمیر میں سات لاکھ فوج کی موجودگی ‘ بہیمانہ مظالم بلکہ نسل کشی اور اقوام متحدہ کی قرار دادوں کی پامالی پر نام نہاد عالمی برادری نے پچھلے بیس سال میں اعتراض کیا نہ اب شائد خواب خرگوش سے بیدار ہو‘ او آئی سی‘ ہر چند کہیں کہ ہے نہیں ہے۔ پچھلے اجلاس میں ہمارے برادر اسلامی ملک نے سشما سوراج کو بطور مندوب بلا لیا اور ہمارے بائیکاٹ کی دھمکی کارگر نہ ہوئی لہٰذا نریندر مودی نے انتہائی قدم یہ سوچ کر اٹھایا ہے کہ چند روزہ شور شرابے کے بعد وہ کشمیر کو اسی طرح ہڑپ کر لے گا جس طرح عشروں قبل حیدر آباد دکن اور دیگر مسلم ریاست کو کیا۔ پاکستان کے پاس اب آپشنز کیا ہیں۔ بھارتی قبضے کے خلاف جاں بکف کشمیری نوجوان اور سید علی گیلانی جیسے لیڈر پاکستان کی پہلی دفاعی لائن ہیں۔ سوچنے کی بات ہے کہ اگر سات لاکھ بھارتی فوج کو کشمیری حریت پسندوںنے انگیج نہ کر رکھا ہو تو افغانستان اور فاٹا کی دلدل میں پھنسا پاکستان کس نوعیت کے عسکری خطرات سے دوچار ہوتا۔ بلوچستان اور کراچی کی علیحدگی کے منصوبے کی ناکامی میں اہم کردار کشمیری حریت پسندوں کا ہے۔ جن کی وجہ سے بھارت پاکستان پر براہ راست حملے کی جرات نہیں کر سکا‘ یہی سات لاکھ فوج اگر مشرقی سرحدوں پر تعینات ہو تو حالات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلا لیا گیا ہے مگر اجلاس کے اختتام پر وزیر اعظم عمران خان آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے ساتھ کنٹرول لائن کا دورہ کریں‘ قائد حزب اختلاف کے طور پر میاں شہباز شریف اور دیگر پارلیمانی جماعتوں کی قیادت کو بھی ساتھ لے جائیں اور وہاں کھڑے ہو کر کشمیری عوام کو پاکستان کے سیاسی‘ سفارتی‘ دفاعی‘ اخلاقی مادی اور عسکری تعاون کی یقین دہانی کرائیں تاکہ کشمیری عوام کے حوصلے مزید بلند ہوں۔ بہتر یہ ہو گا کہ اسلامی کانفرنس تنظیم کا سربراہی اجلاس بھی طلب اور چین ‘ سعودی عرب‘ ملائشیا ‘ ترکی ایسے قابل اعتماد دوست ممالک کی قیادت سے بھی مشاورت کا عمل فی الفورمکمل کیا جائے۔ جموں و کشمیر میں پھوٹنے والے لاوے کی روک تھام میں ناکامی پر بھارت کنٹرول لائن پر چھیڑ چھاڑ کر سکتا ہے اور 27فروری کا بدلہ چکانے کی خواہش دوبارہ جاگ سکتی ہے۔ ہمیں گھوڑے تیار رکھنے چاہئیں کہ کمزوری اور غفلت ہمیشہ دشمن کو یلغار کی ترغیب دیتی ہے۔سرمنڈاتے ہی اولے پڑے کی کیفیت سے دوچار عمران خان کو قدرت نے موقع دیا ہے کہ وہ قومی اور علاقائی و بین الاقوامی سطح پر اپنی قائدانہ صلاحیتوں کو ثابت کریں۔ امریکی صدر ٹرمپ سے وہ براہ راست بات کریںاور انہیں بھارتی عزائم اور اقدامات کے تباہ کن نتائج کا احساس دلائیں مودی اگر بات سننے کے موڈ میں نہیں تو 27فروری کی طرح قوم سے خطاب کے ذریعے انہیں پاکستانی عوام کے جذبات و احساسات سے آگاہ کریں‘باور کرائیں کہ یہ صرف کشمیری عوام نہیں پاکستان کے خلاف اعلان جنگ ہے۔ پاکستان مسئلہ کشمیر کا فریق ہے اور اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق بھارت مقبوضہ جموں و کشمیر کی حیثیت کو ازخود تبدیل نہیں کر سکتا۔ اس موقع پر کسی قسم کی کمزوری اور سہل کوشی بھارت کے حوصلے بلند کرے گی اور پاکستان کو درپیش خطرات میں اضافہ۔ کشمیر سے فارغ ہونے کے بعد بھارت پاکستان سے دو دو ہاتھ کرنے کی کوشش لازماً کرے گا کہ خطے میں اس کے توسیع پسندانہ عزائم میں یہ واحد اور ناقابل برداشت رکاوٹ ہے۔ آج یہ بات دور کی کوڑی لانے کے مترادف ہے‘ مگر گجراتی قصاب سے ہر چیز متوقع ہے حتیٰ کہ براہ راست فوجی جارحیت بھی۔ کشمیری عوام سے اظہار یکجہتی کے لئے جہاد کشمیر میں سرفروشانہ کردار ادا کرنے والی تنظیموں اورقیادت کو بھی ریلیف دے کر ہم بھارت کو سخت پیغام دے سکتے ہیں کہ یوں تو پھر یوں ہی سہی۔افغانستان میں امریکی ہزیمت میں ہمارے لئے سبق یہ ہے کہ بھارت عفریت ہے نہ ناقابل شکست ۔بس حوصلہ بلند ہونا چاہیے مگر عمران خان کے کم ہمت ‘بے سمت ساتھیوں سے یہ توقع عبث ہے۔ یہی بلا جواز مصلحت کیش اور کم حوصلگی ہمارے پائوں کی زنجیر تھی‘ رہی اور ہے۔