جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے فیصلے کے وقت بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے یقین دلایا تھا کہ کشمیر میں اب گھاس کی بجائے سونا اگے گا، دریاؤں میں پانی کے بدلے دودھ کی نہریں بہا دی جائیں گی اور آسمانوں میں پرندوں کی نہیں کشمیریوں کی پروازیں دیکھنے کو ملیں گی۔دنیا کی بیشتر آبادی نے مودی پر بھروسہ کیا، خاموش رہ کر ان کا ساتھ دیا اور انتظار کرنے لگے کہ کب وہ اس بہتی گنگا میں ہاتھ ڈالنے آئیں گے۔کشمیری بھی بھروسہ کرتے مگر انہوں نے 2002 ء کے گجرات والے مودی کو دیکھا تھا جب ان کے دور حکومت میں تقریبا دو ہزار مسلمانوں کی ہلاکت سے بھارت کی اقلیت کو واضح پیغام دیا گیا تھا کہ وہ اس ملک کے شہری ہونے کے باوجود مشکوک ہیں اور انہیں نسل در نسل اس عذاب سے گزرنا پڑے گا۔کشمیریوں کو مودی کا وہ چہرہ آج بھی ذہن نشین ہے جب وہ سن 1992 ء میں اس وقت بغل میں جھولی لے کر لال چوک میں ترنگا لہرانے کے لیے آئے تھے۔ وہ کشمیریوں کو یہ بتانے آئے تھے کہ وہ اپنے حقوق کی لاحاصل جنگ لڑ رہے ہیں اور وہ دن دور نہیں جب وہ اس خطے کو آسیب بن کر ایسے نگل لیں گے کہ دہشت اور وحشت کے سائے میں زندہ رہنے کی بجائے لوگ اپنے وجود سے نفرت کرنا شروع کر دیں گے۔ چند کشمیری مودی کو پہلے واجپائی سمجھنے لگے تھے کہ جن کے سینے میں آر ایس ایس کا دل تو دھڑکتا تھا لیکن اس کے باوجود انہوں نے کئی محفلوں میں اس بات کو دہرایا تھا کہ ’کشمیریوں نے بہت مصائب جھیلے ہیں اب ان کی خواہشات کی قدر کرنے کا وقت آگیا ہے۔ پاکستان سے مل کر اس مسئلے کو سلجھانا ہوگا اور کشمیریوں کے حقوق کو بحال کرنا ہوگا۔‘ مگر ان چند لوگوں کو اس وقت مایوسی ہوئی جب ان کو پتہ چلا کہ مودی دراصل آر ایس ایس کی اس شاخ کے پیروکار ہیں کہ جو کشمیریوں اور خصوصاً مسلمانوں کو یہ باور کرانے کا عزم کر چکی ہے کہ وہ ان کے لیے ایسے حالات کا تعین کریں گے جو عوام کو قوت مزاحمت سے بھی محروم کر دیں گے۔ گجرات کے بعد مظفرنگر یا دہلی کے منظم طور پر کرائے جانے والے فسادات کی مثالیں تصدیق کے لیے کافی ہیں۔ستم ظریفی یہ ہے کہ بابری مسجد کی جگہ پر رام مندر کی بنیاد ڈالنے کی پوجا میں سیکولر کہلانے والی سیاسی جماعتوں نے شمولیت کی رضامندی ظاہر کی تھی۔ بھلا ہوکورونا وائرس کا کہ جس کی وجہ سے انہیں ٹیلی ویژن سکرینوں پر ہی پوجا میں شامل ہونا پڑا۔ پھر مودی بھی اس لمحے کی بیانتہا خوشی کو دوسروں کے ساتھ کیسے بانٹتے۔۔۔ پچھلے برس مودی نے کشمیریوں کو اجتماعی سزا کا ایسا فیصلہ سنایا کہ ایک کروڑ بیس لاکھ آبادی پر مشتمل ریاست کو رات کی تاریکی میں جیل خانہ بنا دیا۔ پندرہ لاکھ بچوں کو تعلیم سے محروم کر دیا، تیرہ ہزار بچوں کو گرفتار کر کے کشمیر سے باہر جیلوں میں بند کر دیا، پانچ لاکھ افراد کو روزگار سے محروم کر دیا، چالیس ہزار کروڑ روپے کے تجارتی نقصان سے کشمیری معیشت کو برباد کر دیا۔ سیاحت کی انڈسٹری کو جان بوجھ کر مفلوج بنا دیا اور اس سے منسلک دو لاکھ سے زائد خاندانوں کو بھیک مانگنے پر مجبور کر دیا۔مودی نے کہا تھا کہ بندوق کو کشمیری آبادی سے نیست و نابود کر دیا جائے گا۔ اب تک بندوق پکڑنے کی تفصیل تو نہیں ملی مگر بندوق رکھنے کی پاداش میں 214 نوجوانوں کو سکیورٹی کارروائیوں میں ہلاک اور 1400 کو زخمی کر دیا۔ سینکڑوں مکانات کو بارود سے اڑانااور کروڑوں کی جائیداد کو خاکستر کرنا فوج کا مشغلہ بنا دیا۔بھارت کی مختلف ریاستوں میں ایک لاکھ سے زائد کشمیری طلبا اور طالبات کو ہندوتوا کے خوف کے باعث واپس کشمیر آنا پڑا اور بیرون ریاست تاجروں کو زندگی بچانے کی غرض سے اپنا کاروبار چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑا۔ مودی حکومت نے حال ہی میں تین درجن صفحات پر مشتمل ایک پیپر میں اپنی بہتر کارکردگی کی تفصیل بتائی ہے۔ اس کو پڑھ کر جنرل گوبلز کی یاد تازہ ہو جاتی ہے کہ جس نے ہٹلر کے فاشزم کو پھیلانے میں اتنا جھوٹ پھیلایا کہ خود ہٹلر بھی جھوٹ کو سچ ماننے لگے تھے۔ مگر مودی نے بعض ایسے اقدامات کا ذکر نہیں کیا جو کشمیری قوم کے خاتمے کے لیے اٹھائے گئے ہیں۔اس ایک برس میں مودی نے کئی ایسے قوانین لاگو کیے جن کے بدولت اس خطے کا مسلم کردار چند برس کے اندر اندر ختم ہوجائے گا۔ ڈومیسائل قوانین لاگو کر کے مشرقی پاکستان کے شرنارتھی، نیپالی گورکھا، والمیکی کہلانے والے پناہ گزینوں، کشمیر انتظامیہ میں دوسری ریاستوں کے ملازمین اور طلبا کو شہریت کی سندیں فراہم کرنا لازمی بن گیا ہے۔ دس لاکھ سے زائد فوجی گذشتہ کئی دہائیوں سے وادی کے چپے چپے پر موجود ہیں اور غیر مصدقہ ذرائع کے مطابق چار لاکھ غیر مسلموں کو شہریت کاسرٹیفیکٹ دینے کا پہلا منصوبہ روبہ عمل لایا گیا ہے۔ایک اور قانون کے تحت فوج کو کسی بھی مقام پر زمین حاصل کر کے اپنا اڈہ قائم کرنے کی آزادی ہوگی جبکہ لاکھوں کلومیٹر کا رقبہ پہلے ہی فوجی قبضے میں ہے۔ کشمیری پنڈتوں اور غیر کشمیری شہریوں کے لیے محفوظ مقامات پر مکانات تعمیر کرنے کا اسرائیلی فارمولہ تیار کیا گیا ہے جس کے لیے کئی علاقوں میں زمین کی نشاندہی اور تعمیرات شروع کی گئی ہیں۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جانا چاہیے کہ کشمیر اگر کشمیریوں کے لیے محفوظ نہیں رہا ہے تو غیر کشمیریوں کے لیے محفوظ کیسے بن جائے گا؟ اگر بندوق دکھا کر قوموں کو مٹایا جاتا تو آج بھارت اور پاکستان دو آزاد ملکوں کی طرح نہیں ہوتے، جنوبی افریقہ نسل پرستی سے آزاد نہیں ہوا ہوتا، کوسوو کے شہری فوجی بربریت سے آزاد نہیں ہوئے ہوتے۔دراصل مودی کا کشمیر پلان ناکام ہی نہیں بلکہ بھارت کے لیے بھی خطرناک بن گیا ہے جس کی شکل اب اتنی بدصورت بنتی جا رہی ہے کہ عنقریب ہی بھارت کے عوام کشمیر سے آزادی حاصل کر نے کی مہم شروع کریں گے جیسا کہ معروف ناول نگار اروندھتی راے نے اپنی کتاب میں دعوی کیا ہے۔