نریندر مودی کی حلف برداری کی تقریب میںعمران خان کو شرکت کی دعوت نہیں دی گئی ۔تاہم پاکستان اور بھارت کے حالات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اس بات پر حیرانی نہیں ہونی چاہیے۔ نریندر مودی نے اپنی تقریبِ حلف برداری میں بے آف بینگال ملٹی سیکٹرل ٹیکنیکل اینڈ اکانومک کوآپریشن ’’بمسٹیک‘‘کے ارکان کو مدعو کیا ہے۔ یہ ادارہ جنوبی ایشیا اور جنوب مشرقی ایشیا سے تعلق رکھنے والے سات ممالک انڈیا، بنگلہ دیش، میانمار، سری لنکا، تھائی لینڈ، نیپال اور بھوٹان پر مشتمل ہے جس کا قیام بینکاک میں ایک قرارداد کے تحت جون 1997ء میں عمل میں آیا تھا۔مودی کی حلف برداری کے موقع پر ’’بمسٹیک‘‘کے ارکان کو مدعو کئے جانے کا مقصد بھارتی حکومت کی نیبر ہوڈ فرسٹ یعنی پڑوسی پہلے کی پالیسی پر عمل کرنے پر مبنی ہے۔لیکن سوال یہ ہے کہ پڑوسیوں کے ساتھ تعلقات استوارکرنے کے حوالے سے بھارت کی موجودہ قیادت اپنے اہم اورقریب ترین پڑوسی پاکستان سے تعلقات استوارکرنے کے بجائے جنگی جنون میں مبتلاکیوںہے؟۔ نریندر مودی بھارت کی قومی سلامتی کے ایشو کوہوادے کرپاکستان دشمنی پر الیکشن جیت کر آئے ہیں۔ مودی نے پہلا الیکشن بھی اسی ایشو پر لڑا اور اس وقت کے بھارتی وزیراعظم منموہن سنگھ کو کھلے عام یہ طعنہ دیتے رہے کہ پاکستان کا مقابلہ کرنے کے لیے چھپن انچ کا چوڑا سینہ چاہئے۔ 2014 ء کی نسبت زیادہ بڑا مینڈیٹ لے کر آنے والے مودی کانگریس کو قیامِ پاکستان کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں، ان سے نئے ابھرتے سیاسی منظر نامے میںایسی امیدیں وابستہ کرنا دیوانے کے خواب کے سوا کچھ نہیں۔بھاری منڈیٹ کے بل پر مودی اب کسی سیانے کے مشورے پر کان نہیں دھریں گے اور وہ خطے میں بھارت کی بالادستی کے لئے ایڑی چوٹی کازورلگادیں گے ۔پاکستان کے حوالے سے مودی جو عزائم رکھتاہے اسے صاف دکھائی دے رہاہے کہ خطے کی تاریخ اورجغرافیہ کھنڈربن کررہیں گے ۔ مودی کی انتخابی مہم کی مرکزی حیثیت پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی پرمشتمل رہی ہے اور اسی بنیاد پرمودی نے ووٹ بھی لیے ۔اس تناظرمیںمودی سرکار کی انتخابات میں بھاری اکثریت سے فتح کودیکھاجائے توپاکستان سے کشمیرتک کی ایک ہی رائے ہے کہ مودی کا دوبارہ برسراقتدارآنااس خطے کی بدقسمتی ہے ۔عمران خان نے بھارتی الیکشن پراسیس کے دوران کہاتھاکہ اگر مودی منتخب ہو جاتے ہیں تو انڈیا اور پاکستان کے تعلقات بہتر ہو جائیں گے پتانہیں عمران خان نے کس عالم میں رہ کریہ امیدجتائی کیونکہ مودی کے گزشتہ پانچ سالہ دوراقتدارمیں پاکستان دشمنی کے اعتبارسے عمران خان کاموقف ہرگزدرست نہیں،حقیقت برمبنی تجزیہ ثابت کرتا ہے کہ مودی کا دوبارہ جیت کرسامنے آنا خطے کو تاریخی موڑ پر کھڑاکردے گا۔اس لئے مودی کا منتخب ہونا پاکستان کے لئے ہرگزنیک شگون نہیں پاکستان کو کسی بڑے چیلنج کے لیے مکمل طورپرتیاررہناچاہئے اوراپنی افواج کو ہائی الرٹ پررکھناچاہئے ۔ مودی کی پاکستان دشمنی کامطلب اس خطے کے تمام مسلمانوں سے کدرکھناہے ۔مودی نے گزشتہ دنوں انتخابی فتح کا جشن منانے کے لیے منعقد کی گئی ایک تقریب میں اپنے مداحوں سے تقریرکرتے ہوئے مستقبل کی اندرونی اور بیرونی پالیسیوں پر اشارے دیے۔ ان کاکہناتھاکہ کارکنوں نے صرف ’’بھارت ماتا کی جے‘‘ کے نعرے کا جذبہ لے کر انتخابی مہم چلائی۔ دنیا کو چاہیے کہ اب وہ بھارت کو سپر پاور تسلیم کرلے۔ہزاروں کارکنوں کے نعروں میں مودی کی فتح کی تقریر میں بھارت اور جنوبی ایشیا کے لیے کئی پیغامات چھپے ہیں۔ مودی کی طرز سیاست پر جو لوگ نظر رکھے ہوئے ہیں ، انہیں مودی کو سمجھنے میں کوئی دقت پیش نہیں آئی۔حقیقت یہ ہے کہ مودی نے اپنی اس تقریرمیںبھارتی نام نہاد سیکولرازم کاپول کھول کررکھ دیا۔ بھارت بھرمیں بی جے پی نے حالات کچھ ایسے جذباتی بنادیے تھے کہ الیکشن کے موسم میں مودی کے ہندوتوانظریئے کو مضبوط کرتا چلا گیااورہندو نوجوان کے متشددجذبات کوخوب آنچ دی۔بی جے پی نے بھارتی مسلمانوں کو واضح پیغام دینے کے لیے دہشت گردی کے مقدمات میں ضمانت پر رہا ہونے والی سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکرسمیت کئی ایسے مجرموں کو الیکشن میں جتوایاجنکی مسلم دشمنی میں کوئی پس وپیش نہیں۔ الیکشن جیتنے کے معاََبعدمودی نے بی جے پی کارکنوں سے پہلے بھاشن میں جوکچھ کہااس میںیہ پیغام واضح تھاکہ بھارت کومبرہن طورپرپوری طرح ایک ہندو راشٹربنانے میں آج تک اگرکوئی کمی رہی ہے تواب اگلے 5سال بھارت کوپورے شدومد کے ساتھ ہندو راشٹر میں ڈھالا جائے گا۔ مودی اس کی بنیاد پہلے دور میں رکھ چکے ہیں۔ کاشی وشوا ناتھ مندر کے لیے کوریڈور کی تعمیر شروع ہوچکی ہے۔ اس مندر کے ساتھ کھڑی مسجد کو بھی بابری مسجد جیسے خطرات کا سامنا ہے۔ کوریڈور کی تعمیر کے دوران مسجد کے باہر بنے چبوترے کو گرا کر مسلمانوں کی مزاحمت کو جانچ لیا گیا ہے۔گنگا کی صفائی بھی ماحولیاتی منصوبے سے زیادہ ایک مذہبی معاملے کے طورپرپیش کیا ہے۔ رام مندر بابری مسجد تنازعہ مودی کے اگلے 5سال کا اہم ترین ایجنڈا ہے جو بھارتی سپریم کورٹ میں ہونے کی وجہ سے پچھلے 5برسوں میں نمٹایا نہ جاسکا۔اب اسے نمٹانے پرعدلیہ کے ساتھ سازبازکیاجائے گااورعدلیہ کوٹف ٹائم دیاجائے گا۔ مودی کی جانب سے آر ایس ایس اور ویشواہندوپریشدسمیت دیگرتمام درجنوں انتہا پسند ہندو جماعتوں ہندوتوا کی بالادستی کے فلسفے کے لئے فری ہینڈدیاجائے گا ۔بی جے پی کے انتخابی منشور میں مقبوضہ جموں و کشمیر کی بھارتی آئین میں جداگانہ حیثیت ختم کرنے کا بھی وعدہ کیا گیااور یہ جداگانہ آئینی حیثیت ختم کرنا بی جے پی کے منشور کا حصہ ہے۔ آرٹیکل (35A)ور آرٹیکل 370اب تک مقبوضہ کشمیر کی آبادیاتی ساخت بدلنے اوراسکی مسلم شناخت ختم کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ اس بار مودی کا بھاری منڈیٹ انہیں آئین میں ترمیم کی ترغیب کاحوصلہ دے گااوریوںمقبوضہ کشمیرکی خصوصی پوزیشن کاخاتمہ کیاجائے گااورپھربھارت سے ہندولائے جائیں گے اورسرزمین فلسطین میں یہودی آبادکاری کے اسرائیلی طرزپر انہیں مقبوضہ کشمیرمیں بسایاجائے گا۔