’’بھارتیہ جنتا پارٹی ‘‘کے وزیراعظم ، شری دامودرس داس ، نریندر مودی دوسری بار بھارت کے وزیراعظم منتخب ہوگئے ہیں ۔ وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان سمیت ، دُنیا بھر کے حکمرانوں نے مودی جی کو مبارک باد کا پیغام بھجوایا ہے ۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ ’’ مَیں جنوبی ایشیا ء میں امن ، ترقی اور خوشحالی کے لئے مسٹر مودی کے ساتھ مل کر کام کرنے کو تیار ہُوں ‘‘اور جواب میں وزیراعظم مودی نے وزیراعظم عمران خان سے اظہار ِتشکر کِیا ہے ۔ معزز قارئین!۔ اِس طرح کی مبارک باد اور جواب میں اظہارِ تشکر ، سفارتی اخلاقیات کا تقاضا تھا / ہے۔ اصل مبارک باد کے مستحق تو امریکی صدر "Mr Donald Trump" ہیں ۔ مَیں اپنے کئی کالموں میں لکھ چکا ہُوں کہ ’’ امریکی صدر خواہ انتخابی نشان والی "Kicking Donkey" (دولتّی مارتے ہُوئے گدھے ) والی ’’ڈیمو کریٹک پارٹی ‘‘ سے تعلق رکھتا ہو یا "Elephant" ( ہاتھی) والی ’’ری پبلیکن پارٹی ‘‘ سے ، اُس کا جھکائو بھارت کی طرف ہوتا ہے ، پاکستان کی طرف نہیں ؟۔ شری مودی 26 مئی 2014ء کو وزیراعظم منتخب ہُوئے تو اُن دِنوں ’’گدھے‘‘ کے انتخابی نشان والی ’’ڈیموکریٹ پارٹی‘‘ کے "Barack Hussein Obama" صدر امریکہ تھے اور موجودہ صدر امریکہ "Mr Donald Trump" کا تعلق بھی ’’ ہاتھی‘‘ کے انتخابی نشان والی ’’ ری پبلیکن پارٹی‘‘ سے ہے ۔ بھارت میں حکومت ’’ بھارتیہ جنتا پارٹی‘‘ کی ہو یا ’’ انڈین نیشنل کانگریس‘‘ کی اُن کے اکثر قائدین اور کارکنان ۔ تباہی و بربادی کے دیوتا۔ ’’ بھگوان شِوا ‘‘ اور اُن کی پتنی ( بیوی ) ’’ پاورتی دیوی‘‘ کے بیٹے ’’ گنیش‘‘ (Ganesha) کو دیوتا مان کر اُن کی پوجا کرتے ہیں ، جس کا سر ’’ہاتھی ‘‘ (Elephant) کا تھا اور جسم اِنسان کا ۔ معزز قارئین!۔ مَیں دُور تک نہیں جائوں گا لیکن، یہ تو کہنا پڑے گا کہ ’’ مسئلہ کشمیر کے چمپئن ‘‘ سِولین چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر و صدرِ پاکستان اور وزیراعظم پاکستان ، ذوالفقار علی بھٹو، اُن کی وزیراعظم بیٹی بے نظیر بھٹو ، اُن کے ’’روحانی فرزند‘‘ صدر آصف زرداری مسئلہ کشمیر حل کرنے میں سنجیدہ نہیں تھے اور نہ ہی تین بار وزیراعظم منتخب ہونے والے میاں نواز شریف ؟ 26 مئی 2014ء کو ’’شب ِ معراج رسول ؐ ‘‘ کے موقع پر وزیراعظم نواز شریف نے رات وزیراعظم مودی کے ساتھ گزاری ۔اگلی صبح خبریں آئیں کہ ’’ وزیراعظم مودی نے وزیراعظم نواز شریف کو "Man of the Peace" (مردِ امن ) کا خطاب دِیا ہے ‘‘۔ پھر وزیراعظم مودی نے میاں نواز شریف کی والدۂ محترمہ شمیم اختر کو شال کا تحفہ بھجوایا اوروطن واپسی کے بعد وزیراعظم نواز شریف نے بھی مودی جی کی ماتا جی "Heeraben Modi" کو سفید ساڑھی کا تحفہ ۔ معزز قارئین!۔ 25 ستمبر 2014 ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرنے کے لئے وزیراعظم نوازشریف نیویارک پہنچے ۔ مَیں 1992ء سے نیویارک میں "Settle" اپنے بڑے بیٹے ذوالفقار علی چوہان اور اُس کے اہل و عیال کے ساتھ چھٹیاں گزارنے گیا تھا۔ ایک ہفتہ پہلے ٹیلی فون پر میری فرمائش پر میری بہو ڈاکٹر عالیہ چوہان نے میرے لئے "The New York Times"اور "The Wall Street Journal" کی "Files"سنبھال رکھی تھیں۔ مَیں نے نیو یارک سے کئی کالم ’’نوائے وقت‘‘ کو بھجوائے ۔ صِرف دو کالموں کا تذکرہ کروں گا ۔ مَیں نے لکھا تھا کہ ’’ 2002ء میں بھارتی صوبہ گجرات کے وزیراعلیٰ کی حیثیت سے نریندر مودی نے ہزاروں مسلمانوں کا قتل عام کِیا تھا ، جس پر احتجاج کرتے ہُوئے حکومتِ امریکہ نے۔ مودی صاحب کی اپنے مُلک میں "Entry" بند کردِی تھی لیکن، اُسی امریکہ کے صدر باراک حسین اوباما نے مودی صاحب کے اعزاز میں "Grand Diner" کا اہتمام کِیالیکن، ’’اسلامیہ جمہوریہ پاکستان ‘‘کے وزیراعظم میاں نواز شریف سے ملاقات بھی گوارا نہیں کی۔ یہاں تک کہ ’’امریکی وزیر خارجہ نے پاکستان کے وزیر خارجہ (سرتاج عزیز) سے ملاقات ہی نہیں کی ۔ وزیراعظم مودی نے بھی وزیراعظم نواز شریف سے بھی ملاقات نہیں کی تھی اور نہ ہی بھارتی وزیر خارجہ نے ہمارے وزیر خارجہ سے ‘‘۔ اِس پر یکم اکتوبر 2014ء کو میرے کالم کا عنوان تھا کہ ’’ مجھے شری مودی نے ہرا دِیا؟‘‘۔ یکم اکتوبر کوصدر باراک حسین اوباما کے ’’ گرینڈ ڈنر ‘‘ میں ’’بھگوان شِوا ‘‘کے پُجاری وزیراعظم نریندر مودی نے ’ گنگا جل‘‘ (دریائے گنگا) کا پانی پی کر "Navaratri" کا تہوار منایا ۔حالانکہ یہ رسم وِشنو دیوتا کے اوتار ’’ بھگوان رام‘‘ کے پُجاری مناتے ہیں ، جن کا عقیدہ ہے کہ ’’ اِس طرح اُن کے گُناہ دُھل جاتے ہیں ‘‘ ۔ معزز قارئین! مَیں نے عرصہ ہُوا ایک بھارتی فلم میں دریائے گنگا کے کنارے لڑکوں لڑکیوں کو ایک گیت گاتے سُنا اور دیکھا تھا جس کی ’’مُکھڑا ‘‘( مطلع ) تھا کہ … رامؔ تیری گنگا میلی ہو گئی، پاپیوں کے پاپؔ، دھوتے دھوتے! …O… اِس پر 2 اکتوبر 2014ء کو میرے کالم کا عنوان تھا ’’ صدر اوباما کی گنگا میلی ؟‘‘ لیکن، صدر اوباما تو، مودی جی پر عاشق ہی ہوگئے تھے۔ اُنہوں نے اپنی اہلیہ ، امریکہ کی "First Lady" مشعل اوباما صاحبہ کے ساتھ دو بار بھارت کا دورہ کِیا۔ 25 جنوری 2015ء کو صدر اوباما اور مسز مشعل اوباما کے دورے کا بھارتی اور امریکی الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر خوب چرچا کِیا گیا۔ اِس پر 27 جنوری 2015ء کو میرے کالم کا عنوان تھا ’’ مودی ؔجی تے ، صدر اوباما ؔدِی گودی ؔجی!‘‘۔ دراصل یہ عنوان ’’ شاعرِ سیاست‘‘ کے شعروں سے لِیا گیا تھا ۔ ملاحظہ فرمائیے… خُوش ہو ٗاے ٗ مہمان نُوں مِل کے ،مودیؔ جی! پَیلاں پاوَن لگ پئی ٗ اُونہاں دی بودی ؔجی! دِلّی تے واشنگٹن ، چَھپ گئیّاں ، تصوِیراں! مودیؔ جی تے ٗ صدر اوباماؔدی ٗ گو دی ؔجی! …O… معزز قارئین!۔ پھر کیا ہُوا رائے وِنڈ (جاتی عمراء ) میں 25 دسمبر 2015ء کو قائداعظمؒ اور اپنی سالگرہ کے موقع پر وزیراعظم نواز شریف نے اپنی نواسی (مریم نواز کی بیٹی ) مہر اُلنساء ؔکی رسمِ حنا پر وزیراعظم مودی کو اُن کے لائو لشکر سمیت مدّعو کرلِیا اور اُنہیں اپنی والدۂ محترمہ سے بھی ملوایا۔ ’’آپی جی ‘‘نے دونوں وزرائے اعظم سے کہا کہ ’’ مل کر رہو گے تو خُوش رہو گے‘‘۔ مودی جی نے سعادت مندی سے کہا کہ ’’ ماتا جی ! ۔ ہم اکٹھے ہی ہیں‘‘لیکن ، نومبر 2016ء میں جب، ہاتھی کے انتخابی نشان والی ’’ری پبلیکن پارٹی‘‘ کے صدارتی امیدوار جناب "Mr Donald Trump" نے اپنی انتخابی مہم شروع کی تو ، عام جلسوں میں کہا کہ "I Love India" تو، پتہ چلا کہ ’’ جناب ڈونلڈ ٹرمپ بھی بھارت اور بھارت کے وزیراعظم سے پیار کرنا چاہیں گے ؟‘‘۔ 20/21 مئی 2017ء کو سعودی عرب کے داراُلحکومت ’’ریاض ‘‘ میں 41 مسلمان ملکوں کی کانفرنس تھی ۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ مہمان خصوصی تھے۔ اپنے خطاب میں صدر امریکہ نے پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کو دہشت گردی سے متاثرہ ملک قرار دِیا۔ پاکستان کا ذکر تک نہیں کِیا۔ اُس کانفرنس میں مہمان ملک سعودی عرب نے بھی وزیراعظم پاکستان نواز شریف کو کوئی اہمیت نہیں دِی۔ 24 مئی 2017ء کو روزنامہ ’’92 نیوز‘‘ میں میرے کالم کا عنوان تھا ’’ P.M. Nawaz Sharif- "Man out of The Match" ۔ پھر مَیں کیا کروں ؟۔ اب تو ایک ہی چارہ ہے کہ ’’ مَیں اور میرے لاکھوں ساؔتھی مل کر رائے وِنڈ ( جاتی عُمراء ) جائیں اور ’’آپی جی ‘‘ سے درخواست کریں کہ ’’ آپی جی ! آپ نے شری نریندر مودی کو اپنا بیٹا ؔبنا لِیا تھا ، ہم پاکستانی بھی آپ ہی کے بیٹے ہیں ۔ خُدارا !آپ شری مودیؔ سے کہیں کہ ’’وہ ہمارے خلاف ’’ ہتھ ہولا‘‘ رکھیں!۔ معزز قارئین!۔ فی الحال مَیں تو ، یہی کرسکتا ہُوں کہ ’’ قند ِ مکرّر کے طور پر ’’ شاعرِ سیاست‘‘ کے اشعار میں صدر اوباما کے بجائے صدر ٹرمپ کا نام لکھ کر اُن کی گودی ؔ میں مودیؔ جی کو بٹھا دوں۔ ملاحظہ فرمائیں… خُوش ہو ٗاے ٗ مہمان نُوں مِل کے ،مودیؔ جی! پَیلاں پاوَن لگ پئی ٗ اُونہاں دی بودی ؔجی! دِلّی تے واشنگٹن ، چَھپ گئیّاں ، تصوِیراں! مودیؔ جی تے ٗ صدر ٹرمپ ؔدِی ٗ گو دی ؔجی!