جناب جمیل یوسف بنیادی طور پر تو ایک شاعر ہیں لیکن تاریخ، تنقید اور معاشرت پر بھی گہری نظر رکھتے ہیں، گزشتہ دنوں ان کی کتاب ’’مسلمانوں کی تاریخ: ایک نظر میں‘‘ دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ دو ڈھائی سو صفحات کی اس کتاب میں انھوں نے کائنات کے محسنِ اعظم اور قائدِ عظیم حضرت محمد ﷺ سے لے کر پاکستانی مسلمانوں کے سیاسی رہنما قائدِ اعظم محمد علی جناحؒ تک اور ’میثاقِ مدینہ‘ سے ’سقوطِ ڈھاکہ‘ تک کے نشیب و فراز کو دقت نظری سے پیش کیا ہے۔ اس کتاب میں انھوں نے عالمِ اسلام میں موروثی سیاست کے در آنے کی وجوہات اور اس کے دور رس نقصانات کا نہایت مہارت اور دانائی سے تجزیہ کیا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ کُشت و خون کا یہ انتقامی سلسلہ چھے سو سال تک تواتر سے جاری رہا، نسلوں کی نسلیں اندھے انتقام کی بھینٹ چڑھتی رہیں۔ تاریخ کے اوراق اور اعمال سیاہ ہوتے رہے۔ ایک عظیم اُمت موروثی اقتدار کی ہوس میں دشمنوں کے ہاتھوں استعمال ہوتی رہی۔ دین کا بول بالا کرنے والی قوم حکومت کے ذاتی جائیداد کی مانند حصول اور مخالفین سے انتقام تک محدود ہو گئی۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ آج بھی خاندانی بادشاہت کی کشمکش کا یہ سلسلہ عرب و عجم میں کسی نہ کسی صورت جاری و ساری ہے ، جس سے غیر اقوام بالخصوص غیر مسلم ہمیشہ کی طرح فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ ہماری بد قسمتی یہ کہ ہم نے تاریخ، تباہی اور پستی و زوال سے بھی کچھ نہیں سیکھا۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی دنیا کے ڈیڑھ ارب مسلمان چھوٹی چھوٹی مفاد پرست قوموں کے ہاتھوں کھلونا بنے ہوئے ہیں۔آپ تحقیق کر کے دیکھ لیجیے ہر جگہ جھگڑا اپنی اپنی بادشاہت اور اقتدار کا ہے، ورنہ اتنے مسلمان اسرائیل جیسے شطونگڑے کی طرف مل کے پھونک ماریں تو یہ پوری کی پوری فسادی ریاست وا ورولا بن کے اُڑ جائے اور بھارت جیسی مکروہ عزائم اور گائے کے پیشاب اور گوبر کو انسانوں سے زیادہ اہمیت دینے والی بد بخت قوم کو کسی بھی مسلمان کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرأت نہ ہو۔ پھر آپ ذرا پاکستان کی مختصر سی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجیے، یہاں بھی جب سے موروثی اور خاندانی سیاست کا سلسلہ شروع ہوا ہے، مسائل، مصائب اور قومی زوال میں روز بروز اضافہ ہی ہوتا چلا جا رہا ہے۔ موروثیت کو بدبودار نظام اسی بنا پر کہا جاتا ہے کہ اس میں قابلیت، تعلیم، وژن، بصیرت دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں اور کوئی نہ کوئی ماں کا دینا محض مقتدر خاندان سے تعلق کی بنا پر کروڑوں عوام پہ مسلط ہوجاتا ہے اور جاہل عوام جھوٹے نعروں، لاروں سے متاثرہو کر اندھی عقیدت اور گندی غلامی کا روگ پال لیتے ہیں۔ مجھے افسوس اس بات کا ہے کہ ہمارے ہاں ایک پڑھا لکھا طبقہ اسی نظام کی حمایت میں باؤلا ہوا جا رہا ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر کوئی ذوالفقار بھٹو کو پسند کرتا تھا تو وہ آنکھیں اور ذہن بند کر کے نہ جانے کس حس کی تسکین کی خاطر بے نظیر حتیٰ کہ زرداری اور مزید حتیٰ کہ بلاول زرداری تک کے ساتھ اسی عقیدت اور جوش و جذبے کا مظاہرہ کرنے میں مگن ہے، حد دیکھیے کہ ایک ننھا منا بالکا، محض باپ کی خواہش کی بنا پر پارٹی کا صدر بن گیا، بڑے بڑے سینئر ارکان کے ہوتے ہوئے جو اپنی ساری نام نہاد دانش کے ساتھ پہلے اس کے فیڈر چھوڑنے کا بے چینی سے انتظار کرتے رہے، اب اس کا فیڈر، ناز نخرے مع تقریر کا مسودہ اٹھائے اٹھائے پھرتے ہیں اور اس کی ہر حرکت کو جواز فراہم کرنے کے لیے دن کا چَین اور راتوں کی نیند حرام کیے پھرتے ہیں۔ حالانکہ وطنِ عزیز کا شاید ہی کوئی فرد ایسا ہو جو اس ’جمہوری‘ خاندان کے اقتدار میں آنے کی کہانی سے بے خبر ہو۔ آج یہ لوگ دیگر حکومتوں کی جانب اشارہ کر کے طنزاً مختلف جرنیلوں کا نام لیتے ہیں، اور اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ بھٹو، بے نظیر اور زرداری کی حکومتیں، ایوب، یحییٰ کے تھاپڑے کے بغیر کیسے ممکن تھیں؟ چلیں یہ بھی مان لیا کہ بھٹو کے اپنی ذات میں ایک وڈیرہ اور ایک خوف ناک ڈکٹیٹر ہونے کے باوجود کچھ اچھے اعمال سر زد ہو بھی گئے تو یہ کہاں لکھا ہے کہ اس عظیم مملکت پہ حکومت اس کی خاندانی جاگیر بن گئی ؟ جب موصوف نے اپنی بیٹی کو سیاست میں متعارف کرایا تو جناب انور مسعود نے نہایت لطیف انداز میں اس بدعت کی جانب توجہ دلائی تھی: جمہوریت اِک طرز حکومت ہے کہ جس میں والد کی جگہ لینے کو آ جاتی ہے دختر اسی سے ملتی جلتی میاں نواز شریف کی کہانی ہے، پہلے ایک بھائی، پھر دو بھائی،پھر بھائی، بھتیجے، بھانجھے، سالے، بیٹیاں، داماد یہاں تک کہ قریبی اعزہ، دور پار کے رشتے دار، برادری کے سب ماجھے گامے راتوں رات ’سیاسی رہنما‘ بن کے سامنے آنے لگے، جن کی لوٹ مار کا خمیازہ اس ملک کی کمزور معیشت آج تک بھگت رہی ہے۔ ایک زمانے میں تو ایسی صورت تھی کہ ان کے خاندان کا کوئی فرد گھر سے دہی لینے بھی جاتا تو واپسی پہ وزیر بن چکا ہوتا۔سید ضمیر جعفری نے سچ کہا تھا: کچھ بھتیجے ہیں، چند سالے ہیں عہدے تقسیم ہونے والے ہیں اس خاندانی نظام کی سب سے بڑی خرابی یہی ہوتی ہے کہ ہر نا اہل، اقتدار کو اپنی ذاتی جاگیر سمجھنے لگتا ہے اور پھر ملک کے ساتھ وہی کچھ ہوتا ہے جو ہمارے ساتھ گزشتہ ستر سال سے ہو رہا ہے۔بھولے بھالے عوام روٹی ، کپڑے، مکان اور قیمے والے نان کی آس میں کھمبوں کو ووٹ دیے چلے جاتے ہیں اور بعد میں انھی کھمبوں کے ساتھ لگ کے بھیک مانگتے ہیں۔ آج کس کو نہیں پتہ کہ ہمارے یہ اسمبلی ممبران (پی پی پی ، مسلم لیگ اور پی ٹی آئی سمیت) اپنے اپنے حلقوں سے کس کس طرح جیت کے آتے ہیں؟ دھونس، بدمعاشی، رشوت اور سینہ زوری ان کی کل قابلیت ہوتی ہے۔ یہ اپنے اپنے حلقے کو ابا کی جاگیر بنائے رکھنے کے لیے ہر ظالمانہ روش کو روا سمجھتے ہیں۔ پھر الیکشن پہ لگائی ہوئی رقمیں کتنے گنا بڑھا کے قومی خزانے سے وصولتے ہیں، کون آگاہ نہیں ہے؟یہ وہ ممبران اسمبلی ہوتے ہیں جن کا قانون بنانے تو کیا قانون کو سمجھنے سے بھی کوئی تعلق نہیں ہوتا ، یہ وہ قارون ہوتے ہیں جو اپنے حلقوں میں صرف مرضی کے افسران اور قومی خزانے سے وافر حصہ مانگتے ہیں، اور ٹاک شوز میں ٹکے ٹکے کی باتیں کرتے ہیں، اپنی قیمتیں لگواتے ہیں، نظام کے چلنے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہوتے ہیں۔ جب ان کا خاندان نظام پہ قابض ہو جاتا ہے تو یہ اپنی پارٹی میں خوشامدی، مزارع، مالشیے، بوٹ پالشیے،میٹر ریڈر، دکان دار اور جی حضوریے قسم کے لوگ لے کے آتے ہیں، جو آنکھیں بند کر کے ان کی ہاں میں ہاں ملاتے رہیں، خود کھاتے اور ان کو کھلاتے رہیں۔ جب حکومت بدلنے پر کوئی حساب کتاب مانگتا ہے تو یہ سیاسی انتقام کا رٹا رٹایا شور مچانے لگتے ہیں، جاہل عوام اور بکاؤ میڈیا ان کے آلۂ کار بن جاتے ہیں۔ اسی بنا پر ہم سمجھتے ہیں کہ اس ملک میں جاہلانہ گنتی والے اس سازشی برطانوی ’جمہوری تماشے‘ کی جگہ صدارتی نظام کی اشد ضرورت ہے، جس میں کوئی ایک بندہ اپنے کردار اور قابلیت کی بنا پر منتخب ہو، وہ اپنی مرضی کی کابینہ اور مختلف شعبوں میں اہل لوگوں کو سامنے لائے، ہر اچھے برے عمل کا ذمہ دار ہو۔ امریکا، ایران، ترکی وغیرہ جیسے بہت سے ممالک میں یہ نظام کامیابی سے چل رہا ہے، پھر یہی نظام اسلامی خلافت کے بھی قریب ہے۔ شاعرِ مشرق کا یہ تجزیہ قابلِ داد تو ہے ہی اسے قابلِ عمل بنانے کی ضرورت ہے: گریز از طرزِ جمہوری غلامِ پختہ کارِ شو کہ از مغزِ دو صد خر فکرِ انساں نمی آید