اَقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوٹیرس نے دنیا کی صورتحال "انتہائی غیر منصفانہ" قرار دیتے ہوئے دنیا سے ان ممالک کی مدد کے لئے اپنا کردار ادا کرنے کا مطالبہ کیا ہے جنہوں نے عالمی ماحول کو خراب نہیں کیا۔ انہوں نے یہ ریمارکس سیلاب سے تباہ ہونے والے پاکستان کے متعدد علاقوں کا دورہ کرنے کے بعد دیے ہیں، جب انہوں نے پاکستان میں بارشوں اور سیلاب کے نتیجے میں ہونے والی تباہی کے بارے میں آگاہی پیدا کرنے کے لیے پاکستان کا دو روزہ دورہ کیا۔ سیکرٹری جنرل نے کہا کہ انسانیت فطرت کے خلاف جنگ لڑ رہی ہے اور فطرت اب اَپنا ردِعمل دے رہی ہے۔ "اور سندھ میں قدرت نے دوبارہ حملہ کیا، لیکن سندھ نے ان گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج نہیں کیا جس نے موسمیاتی تبدیلی کو بڑھاوا دیا ہے۔" چنانچہ، "سندھ میں جس سطح کی تباہی ہم دیکھ رہے ہیں، اس کے حوالے سے ایک انتہائی غیر منصفانہ صورتحال" ہے جبکہ" بین الاقوامی برادری کے لیے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ سندھ سمیت پاکستان کو آج ان بحرانوں پر قابو پانے کے لیے بڑے پیمانے پر مالی امداد کی ضرورت ہے،" پاکستان کے لیے اپنی اپیل کا اعادہ کرتے ہوئے، گوٹیرس نے ترقی یافتہ ممالک سے کہا ہے کہ اقوام متحدہ کی مدد "سمندر میں ایک قطرہ" ہے۔ اگرچہ سیکرٹری جنرل گوٹیرس پاکستان کے سیلاب سے متاثرہ لوگوں کے لیے 160 ملین ڈالر جمع کرنے کے لیے عالمی اپیل کا آغاز کرچکے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ پاکستان جیسے ترقی پزیر ملک کو موسمیاتی تبدیلیوں کے نتائج پر قابو پانے میں مدد کے لیے عالمی برادری کے ٹھوس تعاون اور مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ پولیو اور ایڈز جیسی مہلک اور خطرناک بیماریوں اور وبائی اَمراض کی روک تھام عالمی برادری کی مشترکہ کوششوں اور مشترکہ جامع حکمتِ عملی کی بدولت ہی ممکن ہے۔ اِسکی قابلِ ذکر مثال کرونا وائرس سے نمٹنے کے لیے کی جانیوالی عالمی برادری کی کوششیں ہے۔ اِن متوقع عالمی چیلنجز کا اِظہار بین الاقوامی تعلقات کے ماہرین نے بھی کیا ہے خصوصاً سرد جنگ کے خاتمے کے بعد جب بین الاقوامی تعلقات کے ماہرین کے درمیان عالمی نظام کے ممکنہ ڈھانچے کے بارے میں بحث شروع ہوئی کیونکہ عالمی نظام کو درپیش ممکنہ چیلنجز سے نمٹنے کا بندوبست تب ہی ممکن ہوسکتا تھا جب اِن خطرات کی بروقت نشاندہی کی گئی ہو۔ اِس سِلسلے میں آب و ہوا، توانائی، دفاع اور سلامتی کے امور کی ماہر اَمریکی پروفیسر Jessica Tuchman Mathews کے تحقیقی کام کا حوالہ دیا جاسکتا ہے جس میں انہوں نے مہلک بیماریوں سمیت ماحولیاتی تبدیلی کے چیلجنجز سے نمٹنے کے لیے اقوامِ عالم کو مشترکہ لائحہ عمل اِختیار کرنے اور اجتماعی کوششوں کو لازمی قرار دیا کیونکہ ان کے بقول اِن چیلجنجز سے کوئی بھی ملک تنہا نہیں نمٹ سکتا حتیٰ کہ اَمریکہ جیسی عالمی طاقت کے لیے بھی ممکن نہیں ہے۔ اِس لیے عالمی برادری کو مشترکہ لائحہ عمل اپنانا چاہئیے اور موسمی تبدیلیوں کے شدید خطرات کا سامنا کرنے والے ملکوں کی ترجیحی بنیادوں پر امداد کرنا چاہیے۔ موسمیاتی بحران کی اِسی سنگینی کی طرف اِشارہ کرتے ہوئے سیکرٹری جنرل انتونیو گوٹیرس کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ " آج پاکستان ہے اور کل کوئی اور ملک ہو سکتا ہے۔ پاکستان کے لیے وسائل کو متحرک کرنا انصاف کا معاملہ ہے کیونکہ پاکستان کو ایک "بے مثال قدرتی آفت" کا سامنا ہے۔"موسمیاتی تبدیلی کا مقابلہ کرنے کے لیے جہاں تک پاکستان کے کردار کا تعلق ہے تو پاکستان نے نومبر 2021 میں گلاسگو میں منعقد ہونے والی COP26 میں شرکت کی اور مزید 100 ممالک کے ساتھ گلوبل میتھین کے عالمی عہد پر دستخط کرتے ہوئے بین الاقوامی سطح پر اہم کردار ادا کرنے کی کوشش کی ہے۔ اِس عہد کا مقصد اَگلی دو دہائیوں میں دنیا کے میتھین کے اخراج کو تقریباً 30 فیصد تک محدود کرنا ہے۔ یہ پہلا موقع تھا جب دنیا بھر کے ممالک نے میتھین کے بڑھتے ہوئے مسئلے سے نمٹنے کے لیے اجتماعی طور پر عہد کرنے پر اتفاق کیا۔یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ موسمیاتی بحران زیادہ سنگین اور زیادہ واضح ہوتا جارہا ہے جس کا خمیازہ پاکستان جیسے ممالک بھگت رہے ہیں۔ اَقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان عالمی سطح پر 1 فیصد سے بھی کم اخراج کے باوجود عالمی سطح پر 10 غیر محفوظ ممالک میں سے ایک ہے۔ڈیوڈ والیس ویلز ایک امریکی صحافی ہیں جو موسمیاتی تبدیلی پر اپنی تحریروں کے لیے مشہور ہیں۔ اَپنی مشہور کتاب ‘‘The Uninhabitable Earth: Life After Warming’’ میں آنے والے ماحولیاتی apocalypse کی ایک خوفناک تصویر پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ "دنیا کے تمام حصے انسانی رہائش کے لیے بہت گرم ہو جائیں گے اور جو لوگ پیچھے رہ جائیں گے وہ گرمی سے مر جائیں گے۔ بیماریاں بڑھیں گی اور بدل جائیں گی۔ خوراک کی قلت دائمی ہو جائے گی کیونکہ ہم زراعت کو ایک آب و ہوا سے دوسری آب و ہوا میں منتقل کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ بنگلہ دیش جیسے پورے ملک اور میامی جیسے دوسرے ممالک کے کچھ حصے پانی کے اندر ہوں گے"۔ لہذاموسمیاتی تبدیلی کا مقابلہ کرنے کے لیے بہت سے محاذوں پر اجتماعی کوششوں کی ضرورت ہے، اور اس کے لیے قومی اور بین الاقوامی سطح پر اجتماعی کارروائی کی ضرورت ہے۔ بظاہر زمین پر اَثر انداز ہونے والی موسمیاتی تبدیلی سماجی، اقتصادی اور سیاسی افراتفری کا باعث بھی بنتی ہے کیونکہ پناہ گزین ایسے علاقوں سے بھاگ جاتے ہیں جو انہیں مزید برقرار نہیں رکھ سکتے۔ پاکستان میں رونما ہونے والے حالیہ موسمی واقعات کو دیکھتے ہوئے اِس حقیقت کو نہیں جھٹلایا جا سکتا کہ موسمیاتی تبدیلی سے لاحق خطرہ واقعتاً وجود میں آچکا ہے اور بروقت تدارک ممکن نہ ہوسکا تو جلد یا بدیر تمام ممالک اپنی باری آنے پر اِسکا سامنا ضرور کریں گے۔ اندریں حالات اَقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے دورہ پاکستان سے امید کی جاتی ہے کہ یہ دورہ دنیا کو اس بات کو اجاگر کرنے میں مدد کرے گا کہ موسمیاتی تبدیلی سے لاحق خطرہ واقعتاً وجود میں آچکا ہے جبکہ پاکستان جیسا ترقی پزیرملک، جس کا گلوبل وارمنگ میں اِنفرادی کردار اِنتہائی معمولی اور تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے، اِیک بھاری قیمت ادا کررہا ہے۔