وزیراعظم شہباز شریف نے بلومبرگ کو خصوصی انٹرویو کے دوران کہا ہے کہ سیلاب کے باعث ملک کا ایک تہائی حصہ ڈوب گیا ہے، موسمیاتی تبدیلی کے باعث سیلاب سے لاکھوں لوگ بے گھر ہوئے ہیں،اپنے وسائل سے متاثرین کی مدد نہیں کر سکتے ،اس سلسلے میں دنیا کو ساتھ دینا ہو گا ۔دوسری جانب وزیر خارجہ بلاول بھٹو نے کہا ہے کہ عالمی برادری سے بھیک یا قرض نہیں مانگتے صرف انصاف چاہتے ہیں ۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستان میں ہونی والی حالیہ سیلاب سے تباہی کسی صرف آفاقی آفت کا نتیجہ نہیں بلکہ عالمی برادری کی غفلت اورلاپرواہی ہے ، جس کے باعث آج پاکستان کا ایک تہائی حصہ پانی میں ڈوبا ہوا ہے ۔اس سے قبل 2005ء میں آنے والے زلزلے سے بڑی تباہی ہوئی تھی ،بعد ازاں2010ء میں آنے والے سیلاب نے بڑے پیمانے پرپاکستانی معیشت کو نقصان پہنچایا ۔ابھی تک نہ زلزلہ متاثرین پائوں پر کھڑے ہو سکے ہیں نہ ہی 2010ء کے سیلاب متاثرین کے نقصان کا ازالہ ہو سکا ہے۔ سرکاری محکموں کے اعداد و شمار کے مطابق 2010ء کے سیلاب سے پنجاب کے 80 لاکھ افراد متاثر ہونے کے ساتھ صوبے کو 900 ملین روپے کا نقصان اٹھانا پڑا تھا۔سندھ میں 36 لاکھ افراد متاثر اور 1300 ارب روپے کا نقصان ہوا۔ خیبر پختونخوا میں ایک ہزار ہلاکتیںہوئی تھیںجبکہ مالی نقصان کا تخمینہ 3500 ملین روپے لگایا گیا تھا۔ اس کے علاوہ بلوچستان کے تقریباسات لاکھ لوگ متاثر اور 190 ملین روپے کا مالی نقصان ہوا تھا ۔آزادکشمیر اور گلگت بلتستان میں تقریباً تین لاکھ افراد متاثر اور 2300 ملین کے مالی نقصان کا تخمینہ لگایا گیا تھا۔لیکن حالیہ سیلاب میں ہونے والی تباہی ماضی سے کئی گنا زیادہ ہے ۔لہذا اس سے اکیلیے نمٹنا کسی لحاظ سے پاکستان کے بس کی بات نہیں ہے ۔وزیر خارجہ بلاول بھٹو نے درست کہا ہے کہ ہم کسی سے بھیک نہیں مانگتے ،نہ ہی کسی سے قرض کا مطالبہ ہے ،ہم تو صرف انصاف چاہتے ہیں کہ جن ممالک کی وجہ سے ہمیں نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے ،وہ آگے بڑھ کر اس کا ازالہ بھی کریں ۔وزیرا عظم میاں شہباز شریف کو بھی اسی پر زور دینا چاہیے کہ ہمیں نقصان کا معاوضہ دیا جائے ،ہمارے قرض معاف کیے جائیں تاکہ ہم متاثرین کی بھر پور انداز میں مدد کر سکیں ۔اس سال پاکستان نے 30ارب ڈالر کی بیرونی ادائیگیاں کرنی ہیں ،ہمارے پاس اس قدر پیسے ہی نہیں ،لہذا ہر جانے کے طور پریہ قرض معاف کیا جائے ۔ جرمن واچ نے اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں 2000 ء سے 2019 ء تک دو دہائیوں کے دوران شدید نوعیت کے موسمی حالات اور قدرتی آفات کا جائزہ لیتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ اس مدت کے دوران عالمی معیشت کو 2.56 کھرب امریکی ڈالرز کا نقصان پہنچا ہے۔اگر دیکھا جائے تو گلوبل کلائمیٹ انڈیکس میں آبادی کے لحاظ سے دنیا کے پانچویں بڑے ممالک میں پاکستان کو عالمی تنظیموں کی جانب سے موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثر ممالک کی فہرست میں آٹھویں نمبر پر رکھا گیا ہے،جس بنا پرپاکستان کی جی ڈی پی کے ہر یونٹ پر اعشاریہ 52 فیصد نقصان موسمیاتی تبدیلی کے باعث ہو رہا ہے اور 19 برسوں میں پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے 173 قدرتی آفات رونما ہوئی ہیں۔موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث سیلاب پاکستان کے لیے سب سے بڑا یا نمبر ون خطرہ بن گیا ہے۔اس کے علاوہ پاکستان کے نقشے پر درمیان سے ایک لکیر کی صورت میں چلنے والے دریائے سندھ کے دونوں کناروں پر ایک سو کلومیٹر کی پٹی میں ملک کے اکثر بڑے شہر، زراعت اور صنعتیں واقع ہیں۔ اس علاقے میں آنے والے دریائی سیلاب پاکستان کے لیے ایک بڑا چیلنج ہیں۔حالیہ سیلاب پر عالمی بینک کی جانب سے بتایا گیا کہ متاثرہ علاقوں میں 73 فیصد گھرانوں کے پاس خوراک خریدنے کے پیسے نہیں۔ 19 لاکھ افراد کو غذائی تحفظ اور زرعی امداد کی ضرورت ہے۔رپورٹ میں خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ متاثرہ علاقوں میں 5 لاکھ 10ہزار سے زائد لوگ غذائی عدم تحفظ کے بالکل قریب پہنچ چکے ہیں اور سیلاب سے پاکستان کے 81 اضلاع میں 3 کروڑ 30 لاکھ آبادی متاثر ہوئی ہے۔سندھ میں 12 لاکھ ہیکٹر زرعی اراضی کو نقصان نے لائیواسٹاک اور زرعی پیداوار پر منفی اثر ڈالا۔ سندھ میں چاول کی 80 فیصد، کپاس کی 88 فیصد، گنے کی66 فیصد پیداوار متاثر ہوئی۔اس کے علاوہ سندھ، خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں سیلاب اورمہنگائی کی وجہ سے غذائی عدم تحفظ بڑھا ہے۔سیلاب سے دس لاکھ گھر مکمل طور پر تباہ ہوئے ہیں، ابتدائی تخمینے کے مطابق تیس ارب ڈالرکا نقصان ہوا ہے۔ پاکستان نے عالمی بینک سے درخواست کی ہے کہ وہ ڈیڑھ ارب ڈالرز سے 2 ارب ڈالرز کی فنڈنگ کو سست رفتاری سے چلنے والے منصوبوں سے پاکستان کے سیلاب سے متاثرہ علاقوں کو نئے استعمال کے پروگرام کے تحت منتقل کرے۔لیکن یہ امداد نقصان کے مقابلے میںانتہائی کم ہے ،لہذا عالمی برادری ہرجانے کے طور پر موسم سرما سے پہلے پہلے متاثرین کیلیے گھروں کی تعمیر کرے تاکہ متاثرین موسم کی شدت سے بچ سکیں ،اس کے ساتھ ہی عالمی ادارہ صحت بھی وبائی امراض کنٹرول کرنے کے لیے آگے بڑھے ۔فصلوں کی تباہی کے باعث غذائی بحران بھی دروازے پر دستک دے رہا ہے ، ماہرین کے مطابق نومبر تک آٹے کی قیمت فی کلو 200روپے ہونے کا خدشہ ہے ۔عالمی ادارہ خوراک بھی آگے بڑھے تاکہ متاثرین کوبھوکا مرنے سے بچایا جا سکے ۔