ا یشیائی ترقیاتی بینک نے دنیا بھر میں موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث گندم،مکئی،گنا،کپاس،چاول اور دیگر فصلوں کی پیداوار میں چھ فیصد تک کمی کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔اے ڈی بی پی کی رپورٹ میں پاکستان سے کہا گیا ہے کہ وہ موسمیاتی تغیر سے زراعت کو پہنچنے والے ممکنہ نقصان کو روکنے کے لئے اقدامات کرے ۔یہ درست ہے کہ پاکستان ماحول کو نقصان پہنچانے میں ہمسائیہ ممالک جیسا کردار ادا نہیں کر رہا تاہم یہ امر بھی درست ہے کہ یہاں ماحول کے حوالے سے حکومت اور شہری اپنی ذمہ داری ادا کرنے میں سنجیدہ نہیں۔حکومت کی ساری کوشش شجر کاری کے ناکافی منصوبے تک محدود ہے جبکہ صنعتی و شہری فضلہ ٹھکانے لگانا، پانی کے ذخائر کو صاف رکھنا،ماحول دوست ٹیکنالوجی کو فروغ دینا اور ماحول کی اصلاح میں دلچسپی رکھنے والے گروپوں و افراد سے رابطے کا فقدان نظر آتا ہے۔ پانی ماحول کا توازن رکھنے میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے ۔پاکستان میں نئے آبی ذخائر نہ بننے کی وجہ سے سالانہ 21 ارب ڈالر مالیت کا پانی سمندر میں شامل ہو جاتا ہے۔چند برس قبل ارسا نے سینیٹ کے پالیسی فورم کے اجلاس میں بتایا تھا کہ ہر سال ضائع ہونے والے اس پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے منگلا ڈیم جتنے تین بڑے ڈیم درکار ہیں۔پاکستان میں پانی ذخیرہ کرنے کے لیے دو بڑے ڈیم تربیلا اور منگلا میں بھی مٹی بھرنے کی وجہ سے ذخیرہ کرنے کی صلاحیت کم ہو رہی ہے۔ پاکستان کے پاس پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت 30 دن کی ہے۔ دنیا بھر میں دستیاب پانی کا 40 فیصد ذخیرہ کیا جاتا ہے پاکستان دستیاب پانی کا محض 10 فیصد ذخیرہ کرتا ہے۔ایک طرف پاکستان اربوں ڈالر مالیت کا پانی سمندر میں پھینک رہا ہے وہیں دوسری جانب آبی ذخائر نہ ہونے کے سبب پاکستان کو پانی کی قلت کا سامنا ہے۔ ماحولیاتی تبدیلیوں کے سبب بارشیں یا تو بہت کم ہوتی ہیں یا پھر بہت زیادہ بارشوں سے طوفان آ جاتے ہیں۔ پاکستان میں دریاؤں میں پانی کے بہاؤ میں 15 سے 20 فیصد کمی آئی ہے۔ماہرین کے مطابق تربیلا ڈیم میں یومیہ پانچ لاکھ ٹن مٹی پانی کے ساتھ آتی ہے۔ اگر اسی طرح تربیلا میں مٹی آتی رہی تو 30 سال کے بعد تربیلا میں پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت ختم ہو جائے گی۔ماحولیاتی اْمور کی نگرانی کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ دریاوں میں جہاں سے پانی آتا ہے وہاں درختوں کی کٹائی اور شدید بارشوں کی وجہ سے اچانک سیلاب آنے کی وجہ سے ڈیموں میں پانی کے ساتھ آنے والی مٹی کا تناسب بڑھ جاتا ہے۔اگرچہ رواں سال گندم کی فصل اچھی بتائی جا رہی ہے تاہم پاکستانمیں ماہر ین ِ زراعت و ماحولیات کہتے ہیں کہ اگر حکومت نے جلد اقدامات نہیں کئے تو خوراک کے ممکنہ عالمی بحران کے باعث پاکستان میں بھی قلت کی صورتِ حال پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔ماہرین نے حکومت کو متنبہ کیا ہے کہ اگر عالمی بحران کے اثر کو کم کرنے کی کوشش نہ کی گئی تو دو سال بعد انتخابی سال میں حکومت کے لئے مشکلبڑھ سکتی ہے۔ جس وقت یہ بحران پوری دنیا میں ہو گا اور ہمارے ہمسائے ملک میں بھی قیمتیں بہت بڑھیں گی اور قلت ہو گی تو پاکستان میں سمگلنگ زیادہ ہو جاتی ہے اور لوگ ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں۔ زرعی ملک ہونے کے باوجود پاکستان گندم درآمد کرتا ہے اور اسی لیے صارفین کو مشکلات درپیش ہو سکتی ہیں،پچھلے اور اس سے پچھلے برس کے حالات اس کی دلیل ہیں۔پاکستان تقریباً دس لاکھ سے ڈھائی لاکھ ٹن گندم درآمد کرتا ہے۔ جب عالمی منڈیوں میں قلت ہوتی ہے تو قیمتیں بڑھتی ہیں اور اس سے یہاں پر غربت اور قیمتوں پر اثر پڑتا ہے۔ پاکستان کو خوراک کی عالمی قیمتوں میں اضافے کے اثرات سے نمٹنا ہو گا۔ گرین ہاوس گیسز کے مجموعی اخراج میں پاکستان کا حصہ بہت کم ہے، لیکن آب و ہوا کی تبدیلی کے منفی اثرات کی وجہ سے درج ذیل صورتوں میں پاکستان بری طرح متاثر ہوسکتا ہے۔امکا ن ہے کہ ہمالیہ میں گلیشیر پگھلنے سے سیلاب کی آمد میں اضافہ ہو سکتا ہے اور یہ عمل اگلی دو سے تین دہائیوں میں آبی وسائل کو متاثر کرے گا۔ اس کے بعد گلیشیرز کی تعداد میں کمی کے ساتھ ساتھ دریاوں کے بہاو میں بھی کمی واقع ہوگی۔میٹھے پانی کی دستیابی میں بھی کمی کا امکان ہے، جس کی وجہ سے بائیو ڈائیورسٹی (پاکستان میں یا کسی خاص ماحول میں پودوں اور جانوروں کی زندگی کے لیے موافق حالات) میں تبدیلی رونما ہوگی اورلوگوں کے پینے کے لئے بھی کم مقدار میں میٹھا پانی دستیاب ہوگا۔پاکستان کے جنوب میں بحیرہ عرب کے ساحل سے متصل علاقوں کو سمندری طوفان اور کچھ شہروں میں دریاوں کی وجہ سے سب سے زیادہ خطرہ ہوگا۔پاکستانی معیشت کا زیادہ تر دارومدار زراعت پر ہے، اس حوالے سے موسمیاتی تبدیلیوں کا تخمینہ لگایا جاتا ہے کہ پاکستان میں فصلوں کی پیداوار میں کمی واقع ہوگی، جس کے نتیجے میں معاش اور خوراک کی پیداوار متاثر ہوگی۔ ملک میں تیزی سے بڑھتی آبادی، شہرکی طرف نقل مکانی اور کم ہوتی پیداوارکی وجہ سے قحط سالی کا خدشہ ہوگا۔بنیادی طور پر سیلاب اور خشک سالی سے وابستہ بیماریوں کی وجہ سے اموات میں اضافے کا خدشہ ہے۔ ساحلی پانی کے درجہ حرارت میں اضافے سے ہیضے کی وباء پھیل سکتی ہے۔آب و ہوا کی تبدیلی کے اثرات اوروسائل کا بے دریغ استعمال معاشرے میں عدم مساوات کو بھی بڑھاوا دیں گے اور معاشرتی عوامل کو عدم استحکام، تنازعات اور لوگوں کی نقل مکانی کا باعث بنیں گے۔یہ صورتحال ایک ایسی جامع ماحولیاتی پالیسی کا تقاضا کرتی ہے جس کی مدد سے زندگی اور معیشت دونوں کا تحفظ کیا جا سکے۔