یہ ان دنوں کی بات ہے جب میاں نواز شریف وزیر اعلیٰ پنجاب تھے اور چودھری پرویز الٰہی نے مخدوم یوسف رضا گیلانی اور میاں محمد آصف سے مل کر بغاوت کا علم بلند کر رکھا تھا ۔اطلاع ملی کہ میاں نواز شریف کی کابینہ کا ایک رکن بھی باغی گروپ سے مل گیا ہے۔ وزیر اعلیٰ کا بیان اخبارات میں چھپا کہ ایک شخص کے جانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا‘ مسلم لیگ پارلیمانی پارٹی کے باقی ارکان میاں صاحب کے ساتھ ہیں۔ مجید نظامی صاحب مرحوم نہیں چاہتے تھے کہ مسلم لیگ اور پنجاب حکومت انتشار کا شکار ہو‘ انہیں موقع ملا تو کہہ ڈالا‘ ایک شخص کے جانے سے واقعی فرق نہیں پڑتا مگر ایک ایک کر کے لوگ جانے لگے تو وزارت اعلیٰ رہے گی نہ پنجاب کی صدارت لہٰذا میاں صاحب روٹھے دوستوں کو منائیں اور مستقبل کی فکر کریں۔ یہ واقعہ جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کے ارکان کی پہلے مسلم لیگ(ن) سے علیحدگی اور اب تحریک انصاف میں شمولیت سے یاد آیا۔ چند روز قبل میاں نواز شریف نے ان کے بارے میں کہا تھا کہ یہ میرے ساتھ تھے ہی نہیں۔ میاں صاحب آج کل جن سیاسی اور ذہنی مسائل کا شکار ہیں شرم و لحاظ کی وجہ سے کوئی پوچھ نہیں سکتا کہ بندہ پرور! انہی آزاد ارکان کے بل بوتے پر آپ کے برادر خورد کی 2008ء میں حکومت تشکیل پائی اور یہی 2013ء سے 2018ء تک آپ کے دست و بازو رہے۔ انہوں نے جنوبی پنجاب کا نیا صوبہ بنانے کے حوالے سے 2013ء میں کیے گئے دعوے کی پاسداری نہ کرنے پر علیحدگی اختیار کر لی تو آپ کو یاد آیا کہ کبھی میرے ساتھ ہی نہیں۔ ع کب کھلا تجھ پر یہ راز انکار سے پہلے کہ بعد؟ رہا پہلے نہ بولنے کا سوال تو یہی بات لوگ نواز شریف سے پوچھ رہے ہیں کہ انہیں خلائی مخلوق پہلے کیوں نظر نہ آئی‘ تحریک عدل پہلے کیوں نہ سوجھی؟صوبہ محاذ کی تشکیل کے بعد جن سیاسی بزر جمہروں کا خیال تھا کہ یہ عمران خان اور تحریک انصاف کی پنجاب میں لینڈ سلائڈ وکٹری کو روکنے کی سازش اور کسی آزاد رکن اسمبلی کو چیئرمین سینٹ کی طرح مستقبل کا وزیر اعظم بنانے کا نقطہ آغاز ہے آج کی پریس کانفرنس کے بعد انہیں اپنی رائے پر نظرثانی کرنی پڑے گی۔ مستقبل کا حال اللہ بہتر جانتا ہے اور اسٹیبلشمنٹ کی سوچ کا قبل از وقت اندازہ لگانا مشکل ہے کہ یہ دایاں دکھا کر بایاں مارنے کی ماہر ہے۔ آصف علی زرداری کی ان دنوں پھرتیاں دیکھ کر آدمی مزید کنفیوژ ہوتا ہے لیکن حالات کا رخ اور سیاست کے تیور دیکھ کر کوئی شخص یہ کہہ نہیں سکتا کہ تحریک انصاف کے راستے میں کوئی رکاوٹ ڈالی جا رہی ہے۔ خلائی مخلوق کے بارے میں بھی میاں صاحب اور ان کے مسلم لیگی ہمنوا بہتر جانتے ہیں کہ ان کا طویل عرصہ تک اسی پر گزر بسر رہا ہے۔ لیکن اسٹیبلشمنٹ کا حالات کو بگاڑنے اور بنانے میں کوئی کردار ہے تو اس کے لیے بھی عمران خان اور تحریک انصاف کے سوا کوئی دوسری‘ قابل عمل اور موثر آپشن نظر نہیں آتی۔ میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری صرف بار بار آزمائے نہیں جا چکے بلکہ ایک سے زائد بار فوج‘ خفیہ ایجنسیوں‘ عدلیہ اور نیب کو تابع مہمل بنا کر خاندانی راج قائم کرنے کا عندیہ بھی ظاہر کر چکے ہیں۔ ع گلیاں ہو جان سنجیاں وچ مرزا یار پھرے میاں نواز شریف اور مریم نواز کی حالیہ احتجاجی اور نفرت انگیز مہم کے بعد کوئی احمق ہی سوچ سکتا ہے کہ میاں شہباز شریف اور نثار علی خان اہل راولپنڈی کو رام کرنے میں کامیاب رہیںگے۔ مسلم لیگ (ن) کو مرکز نہ سہی پنجاب میں ایک بار پھر اقتدار مل جائے تو میاں نواز شریف‘ آصف علی زرداری کو ساتھ ملا کر آرمی چیف کو آئی جی پنجاب ‘چیف جسٹس کو جسٹس قیوم اور چیئرمین نیب کو قمر الزمان کی سطح پر لانے اور کوس لمن الملک بجانے کی تدبیر نہیںکریںگے۔ میاں شہباز شریف میاں نواز شریف سے ہرگز متفق نہیں‘ وہ بظاہر فوج کے بارے میں وہ جذبات نہیں رکھتے جوباپ بیٹی کے ہیں انہیں اداروں کے ساتھ لڑائی مول لینے کا شوق نہیں اور وہ مل جل کر چلنے کے حامی ہیں مگر 28جولائی کے فیصلے کے بعد انہوں نے کمزوری دکھائی‘ہر معاملے میں میاں نواز شریف کے روبرو سر تسلیم خم کیا‘ ان کے غلط سلط فیصلوں کی تائید کی اور اپنے آپ کو بے زبان مقلد ثابت کیا۔ ممکن نہیں کہ وہ بے اعتمادی کی اس خلیج کو پاٹ سکیں جو تاحیات قائد نے پیدا کر دی ہے۔ پرویز مشرف بھی بالآخر اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ میاں شہباز شریف بہت اچھے انسان اور اچھے منتظم ہیں‘میں انہیں طویل عرصے تک نواز شریف سے مختلف سمجھتا رہا مگر ہیں وہ بھی میاں شریف کے لخت جگر نور نظر۔ سانحہ ماڈل ٹائون‘ چھپن کمپنیوں اور اصغر خان کیس کا پنجابی محاورے کے مطابق ’’کٹا‘‘ کھلنے کے بعد مسلم لیگ (ن) صرف اقتدار کی راہداریوں میں ہی نہیں عوامی سطح پر بھی کامیابی کی امید نہیں کر سکتی۔ الیکٹ ایبلز کی یہ جماعت اپنے اصل سرمائے سے محروم ہونے کے بعد ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ اور ’’خلائی مخلوق‘‘ کے نعروں پر الیکشن لڑ کر نقصان تو خوب اٹھا سکتی ہے فائدے کی امید نہیں۔ فیس بک کے مجاہدین اگر اتنے ہی موثر ہیںاور سوشل میڈیا پر شور شرابا ووٹوں کا متبادل ہوتا تو لاکھوں فالو ورزرکھنے والا پرویز مشرف دبئی میں بیٹھ کر اچھے دنوں کو یاد نہ کر رہا ہوتا۔ جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کی تحریک انصاف میں شمولیت کے بعد سرائیکی وسیب میں مسلم لیگ کے علاوہ پیپلز پارٹی کی مشکلات بڑھ جائیں گی دونوں عوام کو ایک نہیں کئی بار دھوکہ دے چکی ہیں جبکہ عمران خان ایک ضدی پٹھان کے طور پر کچھ نہ کچھ کر گزرنے کی شہرت اور اقتدار ملنے کی صورت میں کڑے فیصلے کرنے کی اہلیت رکھتا ہے۔تاہم عمران خان کو بھی اب زبان و بیان کے حوالے سے احتیاط کی ضرورت ہے اور طاقت کے مختلف مراکز کے بارے میں اظہار خیال اسے ایک کھلنڈرے اور صاف گو سیاستدان کے طور پر نہیں قومی ذمہ داریاں سنبھالنے کے لیے تیار مدبر کے طور پر کرنا چاہیے۔ حالیہ انٹرویو میں سابقہ انتخابات کے حوالے سے فوج کا ذکر جس انداز میں ہوا کسی نے پسند نہیں کیا۔ ایسی ہی غیر محتاط گفتگو ایک بار جسٹس آصف سعید کھوسہ کے بارے میں ہو چکی۔ عمران خان کے مشیروں کو بھی اب اپنی ذات اور مفاد سے بالاتر ہو کر اپنے لیڈر کی درست رہنمائی کرنا ہو گی وہ اپنے آپ کو خوشامدیوں کی صف میں کھڑا کرنے کے بجائے مخلص دوست کے طور پر اپنا فرض ادا کریں‘ ایسا دوست جو اپنے نفع و نقصان کی پروا کیے بغیر سچ بات کہہ سکے خواہ کسی کو بُری لگے یا اچھی۔ کوئی مت بھولے کہ پاکستان اب کسی غلطی کا متحمل ہے نہ مہم جو طالع آزما اور کرپٹ لیڈر شپ کا بوجھ اٹھانے کے قابل۔ تباہی جتنی ہونی تھی ہو چکی۔ غلطیاں اس سے زیادہ کیا ہو سکتی ہیں جو ہماری سیاسی‘ مذہبی فوجی اور عدالتی لیڈر شپ نے کیں اور نتیجہ پاکستان نے بھگتا۔ بظاہر فوج اور اس کے متعلق ادارے سبق سیکھ چکے‘ عدلیہ بھی فعال ادارے کے طور پر ماضی کا کفارہ ادا کر رہی ہے۔ زرداری صاحب میاں صاحب اور ان کے ساتھیوں نے گزشتہ دس سال کے دوران اس ملک سے جو کیا اس سے نصف پر فوجی قیادت کا پیمانہ صبر لبریز ہوتا رہا اور مداخلت کی نوبت آ گئی مگر اب ناقابل تصوّربرداشت کا مظاہرہ کیا جا رہا‘ جس کا فائدہ سیاسی قیادت اٹھا کر اداروں کی مضبوطی اور جمہوری اقدار و روایات کے فروغ و استحکام کا کارنامہ انجام دے سکتی ہے لیکن اگر اس نے اپنے آپ کو بدلنے کے بجائے آئین‘ قوانین اور قومی اداروں کے آئینی کردار کو بدلنے اور شخصی حکمرانی کو پروان چڑھانے کی ضد کی تو اب شائد مہلت نہ ملے۔ میاں نواز شریف کا عروج و زوال سیاسی قیادت کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ ایک ایک کر کے لوگ جانے لگیں تو حکومت رہتی ہے نہ پارٹی۔ مگر کوئی سوچے تو؟