ایم ایم اے کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے الزام لگایا ہے کہ سیاسی جماعتوں نے دھاندلی کے باعث الیکشن کے نتائج تسلیم نہیں کیے۔‘‘ ہم اتحادی جماعتوں سے مل کر سپیکر اور وزیر اعظم کا الیکشن لڑیں گے‘ جشن آزادی نہیں منائیں گے بلکہ 14اگست کو یوم جدوجہد کے طور پر منائیں گے‘‘ مولانا نے 14اگست کو یوم آزادی نہ منانے کی بات دوسری بارکی ہے ۔چاہیے تو یہ تھا کہ وہ اپنے پہلے بیان پر معذرت کر لیتے ہیں لیکن ان کے بیان کا اعادہ اس بات کا غماز ہے کہ ان کے کانگریس نواز رویے میں بظاہر کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ لگتاہے کہ انتخابات میں شکست کا صدمہ ان کی سیاست کے لیے جان لیوا ثابت ہو رہا ہے‘ انہیں اس حقیقت کوتسلیم کر لینا چاہیے کہ فاٹا کے خیبر پختونخوامیں انضمام کی مخالفت ان کی سیاست میں شکست کا باعث بنی ہے ‘دوسرے یہ کہ ایم ایم اے کو2013ء کے الیکشن کے مقابلہ میں حالیہ انتخابات میں زیادہ نشستیں ملی ہیں۔مولانا کو یاد رکھنا چاہیے کہ ہارے صرف وہ ہیں اور اپنی ہار کا بدلہ ملک کے یوم آزادی سے نہ لیں وہ اگر سمجھتے ہیں کہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے تو ضرور احتجاج کریں لیکن کیا اس کے لیے پاکستان کا یوم آزادی ہی رہ گیا ہے۔ اس لیے بصد ادب گزارش ہے کہ وہ بھی پوری قوم کے ساتھ جشن آزادی ملی جوش و جذبے سے منائیں اور احتجاج کے لیے بعداز یوم آزادی کوئی دن منتخب کر لیں۔ فتح و شکست کھیل کے میدان میں بھی ہوتی ہے اور سیاست میں بھی۔ سیاسی دانش کا تقاضا یہی ہے کہ اپنی شکست کے اسباب پر غور کر کے آئندہ کا لائحہ عمل ترتیب دیا جائے تاکہ غلطیوں کے اعادہ کا سدباب کر کے کامیابی کے حصول کو ممکن بنایا جا سکے۔