دھرنا ہو گا یا نہیں، مولانا فضل الرحمٰن حکومت کوہٹانے کی تحریک شروع کرنے کے لئے دوسری جماعتوں کو راضی کر پاتے ہیں یا نہیں لیکن ایک بات عیاں ہے کہ وہ شدید برہم ہیں۔ کسی حکومت سے نہیں، نہ ہی اسٹیبلشمنٹ سے ان کو کوئی بڑا گلہ ہے، برہمی انکی سیاسی بیچارگی کی وجہ سے ہے جس کا وہ 2018 ء کے انتخابات کے بعد شکار ہوئے ہیں۔اس کی ایک نہیں بہت سی وجوہات ہیں۔ اول تو انہیں یہ بات ستاتی ہو گی کہ وہ بہت عرصے بعد پارلیمنٹ میں موجود نہیں ہیں، خیر اس بات سے وہ زیادہ صدمہ نہ لیتے لیکن اس کے ساتھ ہی انکی سیاسی قامت بھی ایک دم گھٹ کے رہ گئی ہے کہ عمران خان اور ان کے اتحادی، مرکز، پنجاب ، خیبر پختونخواہ اور بلوچستان میں حکومت میں براجمان ہیں اور وہ ا ن میںسے کسی بھی حکومتی شخص کو کسی بھی کام یا ضرورت کے لئے فون نہیں کر سکتے۔ لے دے کے سندھ ہے جہاں شاید ان کی آواز سنی جاتی ہو لیکن وہاں انہیں بات کرنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔13 سال انہوں نے اس طرح گزارے کہ ہر حکومت کی طرف سے تمام محکمہ جات کو ملک بھر میں ان کا ہر حکم ترجیحی بنیادوں پر بجا لانے کا کہا گیا تھا اور ان کا کوئی بھی کام، جیسا بھی ہو نہیں رکتا تھا۔ یہ الگ بات کہ ان کے اپنے وزیر ہائوسنگ پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں ان کی بات نہیں سنتے تھے اور مولانا کو اکثر گلہ رہتا تھا کہ وہ ان کے ہی پارٹی کے ایک اور راہنما مولانا شیرانی کے کوٹے پر آئے ہیں لیکن وزیر تو میں نے بنوایا ہے ، پھر بھی میری بات نہیں سنتے۔ ویسے اچھا ہی ہوا کیونکہ، مولانا رحمت اللہ کاکڑ کے خلاف بارہ کہو میں زمین کی خریداری کے سکینڈل کے حوالے سے تحقیقات ہو رہی ہیں۔ جنرل الیکشن ہارنے کے بعد انہوں نے صدارت کا الیکشن لڑا لیکن اس میں بھی ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ مسلم لیگ (ن) نے جنرل الیکشن اور پھر صدارتی انتخاب میں مولانا کی سیاسی طاقت پر بھروسہ کیا لیکن خدا کو شاید کچھ اور منظور تھا۔ اب بھی یہی ہو رہا ہے۔ مسلم لیگ (ن) جس اندورنی اور بیرونی کشمکش کا شکار ہے اسکو مولانا فضل الرحمٰن کی شکل میں کوئی روشنی نظر آ رہی ہے اس لئے وہ بھر پور کوشش کر رہے ہیں کہ مولانا کسی صورت سڑکوں پر نکلیں لیکن مشکل وہی ہے کہ خود اس بارے میں مسلم لیگ (ن) کے اندر اتفاق رائے پیدا نہیں ہو پارہا۔ پیپلز پارٹی کا تو دور دور تک امکان نہیں کہ وہ مولانا کی کسی تحریک کا حصہ بنے جس کے آغاز میں ہی مولانا نے مذہب کا کارڈ کھیلنے کا عندیہ دیا ہے اور اس میں بھی کسی حد تک فرقہ واریت کا عنصر غالب آنے کا امکان ہے۔ پیپلز پارٹی کبھی بھی اپنی نصف صدی کی سیاسی کمائی صرف اس چانس پر ضائع نہیں کرے گی کہ شاید عمران خان کی حکومت کو رخصت کرنے میں کامیاب ہو جائے۔ پیپلز پارٹی میں بہت ہی جہاندیدہ سیاستدان ہیں جن کو پتہ ہے کہ مدارس کے طلباء کو اسلام آباد کی سڑکوں پر لانے کا مطلب کیا ہو سکتا ہے۔ بلاول کی والدہ محترمہ بینظیر بھٹو شہید اپنے پہلے دور حکومت کے پہلے ہی سال اس سازش کا شکار ہوئی تھیںجب اسلام آباد کی سڑکوں پر سلمان رشدی ملعون کی کتاب کے خلاف احتجاج ہوا تھا۔ کہیں نا معلوم مقام سے فائرنگ ہوئی اور بلیو ایریا میں عین امریکن سنٹر کے سامنے مدارس کے طلباء اسکی نہ صرف زد میں آئے بلکہ کچھ شہید بھی ہو گئے۔ پھر کیا تھا محترمہ بینظیر بھٹو جن کا اقتدار اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ اور صدر اسحٰق خان کو پہلے دن سے ہی نہیں بھا رہا تھا، بی بی کے لئے مزید مشکلات کا باعث بنا۔ اس کے بعد تمام مذہبی قوتوں کو یکجا کرنے میں کرتا دھرتائوں کو کوئی مشکل پیش نہ آئی۔ آئی جے آئی بنی اور 1990ء کے انتخابات میں پیپلز پارٹی فارغ ہوگئی۔ پیپلز پارٹی ہر حال میں مولانا سے دور رہنا پسند کرے گی اور وقت پڑنے پر شاید اخلاقی اور سیاسی امداد بھی نہ کرے۔ البتہ مسلم لیگ (ن) کا وہ دھڑا جس کو آگے اندھیرا ہی اندھیرا نظر آ رہا ہے مولانا کی آڑ میں ڈبل گیم ضرور کھیلنا چاہ رہا ہے۔ اگر ان کی تحریک چل پڑتی ہے تو وہ پوری طرح اس میں کود جائیں گے اگر نہیں چلتی تو پھر حتمی فیصلے کا اختیار شہبازشریف صاحب کو دے دیا جائے گا۔ مولانا فضل الرحمٰن اس وقت جس ذہنی تنائو کا شکار ہیں اس میں بظاہر یہی دکھائی دیتا ہے کہ وہ آخری دائو کھیلیں گے۔ وہ کسی بہت بڑی ضمانت کے بغیر پیچھے نہیں ہٹیں گے جس میں ان کے سیاسی کردار کا تعین ہو ورنہ ان کی برہمی برقرار رہے گی۔ ان کو بھی معلوم ہے کہ بھلے وہ کتنے بھی لوگ اسلام آباد لے آئیں ان کی تحریک کے نتیجے میں عمران خان کی حکومت نہیں جائے گی۔ البتہ اس سارے عمل کا ایک بہت ہی خطرناک پہلو ہے جو ملک کے عالمی تشخص کے حوالے سے بہت اہم ہے۔ اسلام آباد کی سڑکوں پر سیاسی کارکنوں کی موجودگی یا احتجاج سے کوئی فرق نہیں پڑتا بلکہ ایک جاندار جمہوری معاشرے کی تصویر کشی ہوتی ہے۔ بدقسمتی سے گزشتہ د و تین دہائیوں سے جس قسم کی صورتحال سے ملک گزرا ہے اور مذہبی انتہا پسندی کے حوالے سے جس طرح ہمیں دیکھا جاتا ہے، مدارس کے طلباء کے اسلام آباد کی سڑکوں پر احتجاج کو اس مذہبی انتہا پسندی سے جوڑا جائے گا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جو بھی افراد مولانا کے دھرنے میں شریک ہوںگے وہ ان کے وفادار ورکرز ہوںگے لیکن اس تاثر کو زائل کرنا شاید ان کے لئے بھی ممکن نہ ہو اور اس بات کا ان کو ادراک بھی ہے، اسی لئے انہوں نے ایک ٹیم تشکیل دی ہے جو مختلف ممالک کے سفارتکاروں کو اپنی تحریک کے حوالے سے آگاہ کر رہے ہیں۔ مولانا منجھے ہوئے سیاستدان ہیں امید ہے وہ اپنی سیاسی بیچارگی سے نکلنے کا کوئی بہتر راستہ ڈھونڈنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔