حکمرانوں کی مجلس میں ایک عالم دین کوکیاکہناچاہئے اورکس اندازمیں بات کرنی چاہئے، ہمارے علماء کرام جاکریہ مفتی عدنان کاکاخیل سے زانوئے ادب تہہ کرکے سیکھ لیتے ۔آج کاموضوع اس لئے چناکیوںکہ پاکستان اورپاکستان سے باہر چوپالوں میںنامورمبلغ مولاناطارق جمیل آج موضوع بحث بنے ہوئے ہیں۔مولانانے گذشتہ دنوں پاکستان کے وزیراعظم جناب عمران خان کے ٹیلی تھون پروگرام میں شریک ہوکرمیڈیااورپاکستانی معاشرے کے عمومی رویے پرتلخ حقائق بیان کئے مگرساتھ ہی وزیراعظم پاکستان کومستثنیٰ رکھا۔ علماء یامبلغین جب حق کی بات کرتے ہیں تو روئے سخن معاشرے کے جن افرادیاگروہوں کی طرف ہوتاہے اگرتووہ ہدایت اوررہنمائی کے طلب گارہوں تووہ رشد وہدایت کی بات سن کراپنامحاسبہ کرتے ہیں اور اپنی خامیاں دورکرنے میں لگ جاتے ہیں۔لیکن مولاناطارق جمیل کاروئے سخن جن کی طرف تھاحق کوقبول کرنے کے بجائے انہوں نے آسمان سرپراٹھالیا۔کئی معروف میڈیااینکرزنے شوراٹھایا۔ہوناتویہ چاہئے تھاکہ مولانااپنی کہی ہوئی حق بات پرڈٹ جاتے اورنتائج وعواقب کواللہ احکم الحاکمین پرچھوڑ دیتے لیکن ہوایہ کہ مولانانے اپنے چنیدہ الفاظ پرمعافی مانگ لی ۔عام لوگ اسے اچھی بات سمجھتے ہیں لیکن یہ روح دین کے خلاف ہے ۔ آپ پاکستان کے عام شہری سے جب مولاناطارق جمیل کے ان تازہ ارشادات پررائے پوچھتے ہیں جن پربعض لوگ انہیں طعن و تشنیع کاہدف بنائے ہوئے ہیں تووہ بولتاہے مولانانے کیاغلط بولا؟انہوں نے میڈیاسے متعلق جوباتیں کہیں درست کہیں اورمعاشرے میں پائی جانے والی قباحتوں کاجس طرح برملااظہارکرتے ہوئے بطورایک مبلغ سچائی بیان کی اپنی ذمہ داری پوری کردی۔لیکن جب ان سے کہاجاتاہے کہ مولانانے اپنے ارشادات پرمعافی مانگ لی ہے توہماری طرح انہیں بھی ا فسوس ہوتاہے ۔سوال یہ ہے کہ کیامولاناطارق جمیل کووزیراعظم پاکستان کے ٹیلی تھون کانفرنس کے موقع پراپنے بیان کردہ ارشادات پرخودشرح صدرنہیں تھایاجو وہ فرماگئے اس پراپنے خلاف میڈیاٹرائل ہونے کے خوفزدہ ہوکرا سے وہ معافی مانگنے پرمجبورہوئے اگران دونوں صورتوںکے پیش نظر مولانانے معافی مانگ لی تویقینایہ افسوس ناک ہے ۔حیرت ہے !کیا مولانا نے عدنان کاکاخیل سے، حکمرانوں کے درباروں میں حق گوئی کاقرینہ نہیں سیکھا۔ 2006ء کی بات ہے،پرویز مشرف کے اقتدار کا سورج پوری آب و تاب سے چمک رہاتھا ان کے جاہ و جلال کے سامنے آئین پاکستان طاق نسیان پررکھ دیا گیا تھا اور مشرف نے خودکوآئین قراردیاتھاوہ جوچاہتے ،وہ جوکہتے وہی قانون تھااوراس پربلاچون وچراعمل ہوجاتا تھا ۔ایسے میں کشمیرہائی وے اسلام آباد کے کنونشن سنٹر میں اسٹوڈنٹس کنونشن کا انعقاد کیاگیاجس کامقصدیہ تھاکہ پاکستان کی نوجوان نسل اپنی تقاریراوراپنے مقالہ جات کے ذریعے مشرف کی حکومت کی بغیرشرط وشروط اپنی حمایت کااظہارکرکے گویاانہیں اپنی ڈکٹیٹرشپ جاری وساری رکھنے پرانکے ہاتھ میں ہاتھ دیں اوران کاساتھ دیں۔ پاکستان بھر کے نمایاں تعلیمی اداروں سے طلبا یہاں پہنچتے ہیں پروگرام کا آغاز ہوتا ہے۔ نوجوان مقررین یکے بعددیگرے اپنی سوچ اوراپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں ،ایسے میں پروگرام کے کمپیئرایک دینی مدرسے کے طالب کا نام لیتے ہیں ،سامعین اورناظرین سمجھ رہے تھے کہ اتنی تقاریرمیں ایک اورتقریرکااضافہ ہوکرسیمنار اپنے اختتام کوپہنچ جائے گا ۔لیکن ہوایہ کہ اس طالب علم نے علمی اورفکری گفتگوکے ذریعے مشرف کوہدف بناتے ہوئے میلہ ہی لوٹ لیااورجن مقاصد کے لئے کنونشن کاانعقادکیاگیاتھادینی مدرسے کے اس طالب علم نے اس کی بساط ہی لپیٹناشروع کردی ۔کنونشن ہال میں لگے پی ٹی وی کے تمام کیمرے کو ایک وجیہہ باریش نوجوان پر فوکس ہوئے ۔ دینی مدرسے کایہ طالب علم بلاکسی خوف وترددمشرف کے سامنے ایک ایک چیزکھول کھول کربیان کرتاہے اورمملکت میں خرابیوں پرانہیں ذمہ دارٹھراتاچلاجارہاہے وہ پرویز مشرف کی ہیبت سے قطعی مرعوب تھا،وہ کھل کرنہایت ہی شائستہ اندازاورشستہ اردومیں گفتگوکررہا تھا اور جب اس نے ملکی مسائل کا ذمہ دار کرپشن اور اختیارات کے ناجائز استعمال کو قراردیا تو مشرف کے چہرے کے عضلات تن گئے لیکن نوجوان گستاخی پر آمادہ تھا اس نے انگشت شہادت پرویز مشرف کی طرف اٹھائی اور کہا جناب صدر! اس ہال میں لگی قائد کی تصویر آپ سے پوچھ رہی ہے کہ جنرل تم تو سرحدوں کے رکھوالے ہوتمہیں ایوان اقتدار کی راہ کس نے دکھائی ۔اس حق گوئی کے بعد وہ پے درپے سچائیاں بیان کرتا چلا گیا۔دینی مدرسے کایہ طالب علم مفتی عدنان کاکاخیل تھا۔ حکمرانوں کی بلائی ہوئی مجالس اورتقریبات یاسرکاری دربار میں بلائے گئے ایک عالم دین ،مبلغ اورایک دینی طالب علم کااندازتکلم اورطرزبیان عدنان کاکاخیل جیساہوناچاہئے ۔اسے حکمران وقت کو احساس ذمہ داری دینی چاہئے ،کبھی بھی حکمران کے منہ پراسکی تعریف نہیں ہونی چاہئے کیونکہ وہ جس منصب پرفائزہوتاہے اسکے تقاضے بہت بڑے ہوتے ہیں ۔اس لئے سرکاری درباروں میںعلماء ومبلغین کے پیش نظرایک ہی ایجنڈاہوناچاہئے اوروہ یہ کہ کس طرح حکمرانوں کی اصلاح کی جائے۔علماء حق بات کہیں اورپھرڈٹ جائیں یہی قرآن وسنت کی راہنمائی ہے ۔علماء اورمبلغین کے پیش نظراگرحکمرانوں کی نصیحت اور اصلاح مرادنہ ہو، تو پھرانہیں ان کے پاس نہیں جانا چاہیے اورہاں اگرحکمرانوں کے محلات و قصور میں خود خواہشات و فتور کا شکار ہوجانے کاخطرہ لاحق ہوتوپھرانہیںہرگز بھی حکمرانوں کے پاس نہیں جانا چاہیے۔تاریخ میں کئی ایسی مثالیں بھی ہیں کہ علماء اورمبلغین اصلاح کی غرض سے سلاطین کے پاس گئے، لیکن وہاں جاکر دینی اعتبارسے خودکوبرباد کربیٹھے، بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ انسان کی نیت ابتدا میں درست ہوتی ہے، لیکن جب آہستہ آہستہ شاہی سہولیات کا رسیا ہوجاتا ہے، تو پھر حق بیان کرنے میں تساہل آنا شروع ہوجاتاہے، یہی وجہ ہے کہ کئی علما امرا و سلاطین کے پاس جانا دور کی بات، ان کے تحفے تحائف تک وصول نہیں کرتے تھے، تاکہ اسے ان سے تال میل کی راہ استوارنہ سکے۔