جالو جالو آگن جالو والے مولانا عبدالحمید بھاشانی نے یکم جون 1970ء کو مشرقی پاکستان میں کمیونزم کی حمایت میں ایک زبردست ریلی نکالنے کا اعلان کیا تھا۔ یہ اعلان سن کر بانی امیر جماعت اسلامی مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی نے کمیونزم کے ردمیں مشرقی و مغربی پورے پاکستان میں ’’یوم شوکت اسلام ‘‘ منانے کا اعلان کیا۔ مولانا کی اپیل پر ساری قوم نے لبیک کہا اور بڑے زور و شور سے تیاری شروع کر دی گئی۔ ’’یوم شوکت اسلام‘‘ کے لئے 31مئی 1970ء کی تاریخ مقرر کی گئی تھی تاکہ بھاشانی اور ان کے مٹھی بھر کے حواریوں پر ہیبت ریلیوں اور جلوسوں کی دھاک بٹھائی جا سکے۔ مولانا مودودی کی اپیل پر کئی سیاسی جماعتوں ‘ کئی اہم شخصیات اور مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع‘ مولانا ظفر احمدانصاری‘ مولانا احتشام الحق تھانوی اور دیگر کئی علمائے کرام نے نہ صرف مولانا مودودی کے اعلان کی تائید کی بلکہ عملاً ساتھ دیا۔ 31مئی سے ایک دو روز پہلے اکا دکا شخصیات تردد کا شکار ہو گئیں۔ مولانا تک جب یہ خبر پہنچی تو انہوں نے فرمایا اب سحر تو ہو کر رہے گی جس کو اپنا مرغا واپس لے جانا ہو وہ لے جائے‘‘ اور پھر زبردست طریقے سے سحر ہوئی۔ لاہور میں شوکت اسلام کے عظیم الشان جلوس کی قیادت ایک ٹرک پر سوار ہو کر مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی نے آغا شورش کاشمیری‘ نوابزادہ نصراللہ خان‘ جنرل ریٹائرڈ سرفراز‘ مولانا گلزار احمد مظاہری اور مولانا عبدالنبی کوکب کے ساتھ کی۔ اس روز لاہور کی سڑکوں پر تاحد نگاہ لوگ ہی لوگ تھے۔ اسی طرح کی پرجوش ریلیاں اس وقت کے مشرقی اور مغربی پاکستان میں ہر جگہ نکالی گئیں۔ گزشتہ روز مولانا فضل الرحمن نے بھی زبان حال سے یہی بات کہی کہ جسے اپنا مرغا واپس لے جانا ہو وہ لے جائے سحر تو ہو گی یعنی دھرنا تو ہو گا اور طے شدہ پروگرام کے مطابق اکتوبر 2019ء میں ہو گا۔ مولانا فضل الرحمن نے دونوں بڑی پارٹیوں کے قائدین کی گفتگو سنی اور کہا کہ دوست آپ اپنا فیصلہ کر لیں البتہ ہمارا فیصلہ اور ہمارا دھرنا اٹل ہے۔ البتہ مولانا کا اندازہ ہے کہ بالآخر مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی بلکہ کئی اور پارٹیاں بھی ان کے ساتھ آ ملیں گی۔ مولانا کے دو ٹوک اعلان نے سیاسی پنڈتوں کے زائچوں‘ تجزیہ کاروں کے تجزیوں اور حکمرانوں کی گیدڑ بھبھکیوں کو غلط ثابت کر دیا اور عملاً یہی اعلان کیا کہ روک سکو توروک لو۔ مولانا فضل الرحمن ایک لمحے کے لئے نہ متردد ہوئے اور نہ کسی سکینڈ تھاٹ کا شکار ہوئے۔ جبکہ دونوں بڑی جماعتوں کے قائدین ابھی تک بقول حفیظ جالندھری ؎ ارادے باندھتا ہوں‘ سوچتا ہوں توڑ دیتا ہوں کہیں ایسا نہ ہو جائے‘ کہیں ایسا نہ ہو جائے رابرٹ فراسٹ نے انگریزی میں The Road Not Takenکے عنوان سے نہایت خوبصورت نظم لکھی ہے۔فراسٹ کی نظم کا تھیم یہ ہے کہ ہمارے سامنے ساری زندگی چانسوں کے دوراہے اور سر راہے آتے رہتے ہیں ہم کنفیوژن کا شکار ہو جاتے ہیں کہ کسے منتخب کریں۔ پی ٹی آئی تو پاکستان میں ’’جدید دھرنے‘‘ کی ٹرینڈ سیٹر ہے اور اسی لئے جناب عمران خان نے اپوزیشن کو خود دعوت دی تھی کہ بسم اللہ اسلام آباد آئیے ہم آپ کو کنٹینر بھی دیں گے کھانا بھی دیں گے اور اپنے تجربے سے آگاہ بھی کریں گے۔ اب یہ وعدہ نبھانے کا وقت ہے مگر معلوم نہیں کہ جناب عمران خان اپنے قول پر ثابت قدم رہتے ہیں یا اس پر بھی یوٹرن لے لیتے ہیں۔ وزیر اعلیٰ محمود خان سے زیادہ حیرتناک بات پی ٹی آئی کے دانشور سیاست دان وزیر تعلیم شفقت محمود نے کہی انہوں نے کہا کہ وزیر اعلیٰ خیبر پختون خواہ نے ٹھیک اعلان کیا ہے کہ مدارس کے طلبہ کو لانے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے تھی۔ اتنا بڑا تضاد۔ کل تک بلکہ آج تک پی ٹی آئی کے قائدین فخریہ کہتے تھے کہ سکولوں کالجوں کے طلبہ و طالبات کیا کریں گے ان کا تو اپنا ووٹ بھی نہیں اس کے جواب میں پی ٹی آئی کی قیادت یوتھ کے قصیدے پڑھتی اور ان کے ذریعے ملک میں انقلاب کی نوید سناتی تھی آج اگر مولانا دینی مدارس کی یوتھ کے ذریعے پرامن احتجاج کریں گے تو اس پر قدغن کس اخلاقی قانون کے ذریعے لگائی جائے گی۔ اول تو معلوم نہیں کہ مولانا دینی مدارس کے طلبہ کو دھرنے میں شامل کریں گے یا نہیں کیونکہ ان کا کہنا ہے کہ ان کے پاس کارکنوں کی کمی نہیں۔ جناب عمران خان اور پی ٹی آئی کے شاہ محمود قریشی پرویز خٹک‘ اسد قیصر اور شفقت محمود جیسے سینئر قائدین کو سنجیدگی سے سوچنا چاہیے کہ جب پارلیمنٹ میں بحث و مباحثے کے دروازے بند کر دیے جائیں جب سیاسی ڈائیلاگ کو شجر ممنوعہ قرار دے دیا جائے، جب ایوان میں بل لانے کی بجائے آرڈی ننس جاری کئے جائیں، جب اپوزیشن کو پابند سلاسل کر دیا جائے اور اسے نگاہ حقارت سے دیکھا جائے تو پھر اپوزیشن کے پاس صدائے احتجاج بلند کرنے کے علاوہ کوئی اور آپشن بچتا ہے؟ ایک حوالے سے مجھے ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کا بے حد احترام ہے مگر منہ آئی گل نہ رہندی اے۔ ڈاکٹر صاحبہ فرماتی ہیں کہ مولانا فضل الرحمن کے ساتھ عوام ہیں نہ کوئی سیاسی پارٹی اگر فی الواقع ایسا ہی ہے تو پھر آپ کو پریشانی اور گھبراہٹ کیوں ہے۔ آنے دیجیے مولانا کو اسلام آباد تاکہ ان کی سیاسی قوت ایکسپوز ہو جائے۔ ڈاکٹر صاحبہ یہ بھی کہتی ہیں کہ مولانا مذہبی کارڈ استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ یہ مذہبی کارڈ کیا ہوتا ہے۔ خود جناب عمران خان دین و سیاست کی جدائی کی نہیں ان کی یکجائی کی بات کرتے ہیں۔ تبھی تو وہ ریاست مدینہ کے ماڈل کو اختیار کرنے کی خواہش کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ میں گزشتہ شب سے مولانا فضل الرحمن اور سابق وائس چیئرمین سینٹ مولانا عبدالغفور حیدری کی تلاش میں تھا تاکہ کلام شاعر بزبان شاعر سن سکوں۔ آج جمعتہ المبارک کی صبح کالم لکھنے کے دوران مولانا عبدالغفور حیدری کا فون آ گیا۔ مولانا کے ساتھ میرا محبت اور احترام کا رشتہ ہے اور وہ مجھ سے بہت شفقت فرماتے ہیں عرض کیا کہ آزادی مارچ کے لئے آپ کی کیسی تیاری ہے کہنے لگے کراچی سے خیبر تک زبردست تیاری ہے۔ ہمارا مارچ انتہائی پرامن ہو گا۔ پرامن احتجاج ہمارا دستوری و جمہوری حق ہے۔ عرض کیا یہ وزیر اعلیٰ محمود خان نے تو کہا ہے کہ ہم احتجاج کرنے والوں کو خیبر پختونخواہ سے نکلنے نہیں دیں گے۔ مولانا حیدری نے فرمایا کہ محمود خان نے اپنے قد سے بڑھ کر دعویٰ کیا ہے۔ یہ چھوٹا منہ اور بڑی بات والا معاملہ ہے۔ محمود خان اپنی حدود میںرہیں اور غیر جمہوری رویے اور آئین شکنی سے اجتناب کریں۔ میں نے کہا کہ مولانا آپ لوگوں پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ آپ مدارس کے بچوں کو دھرنے میں لے آئیں گے۔ مولانا نے فرمایا کہ عمران خان اور طاہر القادری کے دھرنوں میں چھوٹے چھوٹے بچے اور بچیاں شریک ہوتے تھے مگر ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ہمارے آزادی مارچ میں 18برس سے کم عمر کا کوئی نوجوان شریک نہیں ہو گا۔ میں نے مولانا سے آخری سوال پوچھا کہ مولانا اگر آپ کے قافلوں کو روکا گیا اور انہیں اسلام آباد کی طرف نہ آنے دیا گیا تو پھر آپ کی حکمت عملی کیا ہو گی۔ مولانا نے کہا کہ اس سے بڑھ کر ناعاقبت اندیشی کوئی نہ ہو گی کہ قافلے روکے جائیں یا ہمیں نظر بند کیا جائے۔ ہم ہر حال میں پرامن رہیں گے البتہ ہم نے کئی متبادل پلان بھی تیار کر رکھے ہیں۔ ہمارا تو ایک ہی استدلال ہے کہ اگر کل عمران خان کا دھرنا جائز تھا تو آج ہمارا دھرنا ناجائز کیسے ہو گا۔ ہم امید کرتے ہیں کہ حکومت دانشمندی کا ثبوت دے گی اور ہمارے جمہوری و آئینی حق کے حصول میں رکاوٹ نہیںڈالے گی۔ مولانا عبدالغفور حیدری کی باتوں سے تو یوں محسوس ہوا کہ مولانا فضل الرحمن کے نعرہ مستانہ کی تائید میں ان کی جماعت کے سارے قائدین اور کارکنان یک جان سو قالب ہیں۔